ٹائٹن: انتباہی علامات کی نظر اندازی تباہی کا سبب
اوشین گیٹ کے ایک ملازم کے مطابق اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا اگر کوئی ایجنسی ان خدشات کی تحقیقات کر لیتی جو اس نے متعدد مواقع پر اٹھائے تھے
پچھلے سال ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی امید رکھنے والے پانچ افراد اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ان کی آبدوز ٹائٹن بحر اوقیانوس میں پھٹ گئی تھی۔ آبدوز کی مالک اور ا ٓپریٹر کمپنی، اوشین گیٹ ایکسپڈیشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹائٹن میں موجود تمام پانچ افراد بشمول کمپنی کے سی ای او اور پائلٹ اسٹاکٹن رش حادثہ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ آبدوز میں موجود دیگر افراد میں ایک ممتاز پاکستانی خاندان کے دو افراد شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلیمان داؤد، برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور ٹائی ٹینک کے ماہر پال ہنری نارجیولیٹ شامل تھے۔
18 جون 2023 کو آبدوز کے آخری غوطے کے دوران، ٹائٹن کے سمندر میں نیچے آتے ہی آبدوز کی گہرائی اور وزن کے توازن کے بارے میں اطلاعات کے بعد عملے کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ مہم میں شریک سپورٹ جہاز، پولر پرنس نے پھر بار بار پیغامات بھیجے کہ کیا ٹائٹن سمندر کی سطح پر موجود جہاز کو اپنے ڈسپلے پر دیکھ سکتا ہے۔ ٹائٹن کے عملے کی طرف سے پولر پرنس کو آنے والے آخری پیغامات میں سے ایک میں کہا گیا تھا کہ 'یہاں سب اچھا ہے'۔ لیکن جب آبدوز واپس لوٹنے میں ناکام رہی تو ریسکیورز نے بحری جہاز، ہوائی جہاز اور دیگر سامان کو سینٹ جانز، نیو فاؤنڈ لینڈ کے جنوب میں تقریباً 700 کلومیٹر دور ایک علاقے میں پہنچا دیا۔ امریکی کوسٹ گارڈ حکام کے مطابق، ٹائٹن کا ملبہ بعد ازاں ٹائی ٹینک کے کمان سے تقریباً 300 میٹر دور سمندر کی تہہ پر پایا گیا۔ ٹائٹن کے حادثے نے سمندر کے اندر نجی ریسرچ کے مستقبل کے بارے میں دنیا بھر میں بحث شروع کر دی ہے۔
اس ہفتے، ٹائٹن حادثہ کی تحقیقات کرنے والے ایک کوسٹ گارڈ پینل کے ذریعے چار دن کی گواہی کے دوران سنگین سوالات اٹھے کہ آیا اوشین گیٹ نے انتباہی علامات کو نظر انداز کیا تھا۔ پینل اگلے ہفتے مزید پانچ دن گواہی جاری رکھے گا۔ گواہوں نے اب تک جو بتایا وہ اس طرح ہے:
مہلک حادثے سے کئی سال پہلے ہونے والی غوطہ خوری مہم کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے، لیڈ انجینئر ٹونی نیسن نے کہا کہ انہوں نے ٹائٹن کو مہم کے لیے تیار کرنے کے دوران دباؤ محسوس کیا اور آبدوز کو پائلٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ نیسن نے اوشین گیٹ کے شریک بانی، اسٹاکٹن رش کو بتایا کہ وہ ٹائٹن میں داخل نہیں ہو رہے ہیں۔ نیسن کے مطابق، رش کے لیے کام کرنا مشکل تھا، وہ ایسے مطالبات کرتے جو اکثر بدل جاتے تھے، اور ان کی توجہ اخراجات اور نظام الاوقات پر مرکوز رہتی تھی۔ نیسن نے کہا کہ اس نے رش کے ساتھ اپنے اختلافات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی تاکہ کمپنی میں موجود دوسرے لوگ اس سے آگاہ نہ ہوں۔
لیکن کچھ لوگ جیسے ریناٹا روجاس کا نظریہ مثبت ہے۔ وہ ایکسپلوررز کلب کی رکن ہے جس نے مہلک غوطہ خوری میں دو مسافروں کو کھو دیا۔ انہوں نے اپنی گواہی میں مختلف لہجہ اپنایا۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ اوشین گیٹ کے معاملات شفاف تھے اور انہوں نے کبھی نہیں محسوس کیا کہ آپریشن غیر محفوظ تھا۔ روجاس ایک پچھلی غوطہ خوری مہم میں مسافر تھیں اور ٹائٹن کے حادثہ کے وقت سمندر کی سطح پر موجود عملے کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کر رہی تھیں۔ ان کے مطابق ٹائٹن پر سوار لوگوں میں سے کچھ بہت محنتی لوگ تھے جو صرف خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ٹائٹن اس مہلک غوطہ خوری سے چند دن پہلے خراب ہوگیاتھا۔ سائنسی ڈائریکٹر اسٹیون راس نے ٹائٹن کے پھٹنے سے چند دن پہلے ایک غوطے کے بارے میں بتایا کہ آبدوز کے بیلسٹ میں مسئلہ تھا، جو جہاز یا آبدوز کو مستحکم رکھتا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے مسافر لڑھک گئے اور بلک ہیڈ سے ٹکرا گئے۔ ایک مسافر تو الٹا لٹک رہا تھا۔ راس نے گواہی دی کہ باقی دو کمان میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ کوئی زخمی نہیں ہوا لیکن آبدوز کو پانی سے نکالنے میں ایک گھنٹہ لگا۔ اسے معلوم نہیں کہ اس واقعے کے بعد حفاظتی جائزہ یاحل کا معائنہ کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ٹائٹن کو پریشانی ہوئی تھی۔
اوشین گیٹ کی جانب سے ورجینیا کے نارفولک میں واقع امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ جو جہاز کے تباہ ہونے سے متعلق معاملات کی نگرانی کرتی ہے،میں داخل کئے گئے خطوط کے مطابق 2021 اور 2022 کے دوران کم از کم 46 افراد نے ٹائٹن پر کامیابی کے ساتھ ٹائی ٹینک سائٹ تک سفر کیا۔ لیکن سابق مسافروں کی جانب سے آبدوز کی حفاظت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ پہلے گاہکوں میں سے ایک نے دو سال قبل کیے گئے غوطے کو خودکشی کے مشن سے تشبیہ دی۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری اور مہم جو، آرتھر لوئبل نے کہا، تصور کریں کہ چند میٹر لمبی دھاتی ٹیوب میں آپ کا دم گھٹ رہا ہے۔ آپ کھڑے یا گھٹنے ٹیک نہیں سکتے اور ہر کوئی ایک دوسرے کے قریب یا اوپر بیٹھا ہے۔ ڈھائی گھنٹے کے نزول اور چڑھائی کے دوران، توانائی کو بچانے کے لیے لائٹس کو بند کر دیا گیا تھا۔ صرف ایک فلوروسینٹ گلو اسٹک کی روشنی تھی۔ بیٹری اور توازن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے غوطہ لگانے میں بار بار تاخیر ہوئی اور سفر میں مجموعی طور پر ساڑھے دس گھنٹے لگے۔
ٹائٹینک کی سیر کے 2021 کے مشن پر سوارایک اور مسافر نے بتایا کہ جب آبدوز میں میکینیکل مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو سفر روک دیا گیا۔ فریڈ ہیگن کے مطابق، مسافروں نے محسوس کیا کہ ٹائٹن دائروں میں گھوم رہا ہے اور صرف دائیں موڑ سکتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ واضح طور پر ٹائٹینک تک جانے کے قابل نہیں تھے۔ لہذا، ٹائٹن مشن کو ختم کر دیا گیا تھا۔ ہیگن نے کہا کہ وہ غوطہ خوری میں شامل خطرات سے آگاہ ہیں، اور اگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ خطرناک ہے تو وہ فریب میں مبتلا ہے۔
اوشین گیٹ کے ایک ملازم نے کہا کہ کمپنی حکام نے اس کے خدشات کو نظر انداز کیا۔ آپریشنز ڈائریکٹر ڈیوڈ لوچریج نے کہا کہ ممکنہ طور پر اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا اگر کوئی وفاقی ایجنسی ان خدشات کی تحقیقات کر لیتی جو اس نے متعدد مواقع پر اٹھائے تھے۔ لوچریج کی جانب سےآکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن (پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کی انتظامیہ) میں شکایت درج کرانے کے آٹھ ماہ بعد اسے پتا چلا کہ ایجنسی نے تفتیش شروع نہیں کی ہے اور ایجنسی کے پاس اس کی شکایت کے علاوہ بھی 11 کیس باقی ہیں۔ بعد ازاں اوشین گیٹ نے لوچریج پر مقدمہ کر دیا اور اس نے بھی جوابی مقدمہ دائر کر دیا۔ لیکن چند ماہ بعد لوچریج نے اپنی شکایت واپس لے لی اور کیس بند ہو گیا۔
لوچریج نے گواہی دی کہ کمپنی کا مقصد محض پیسہ کمانا تھا۔ سائنس میں بہت کم دلچسپی تھی۔ اس نے 2010 کی دہائی کے وسط میں ایک انجینئر اور آبدوز پائلٹ کے طور پر اوشین گیٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ وہ منصوبے کو سائنسی ساکھ دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اہم گواہوں میں سے ایک تھا۔ اس کی گواہی دیگر سابق ملازمین کی گونج تھی، جن میں سے ایک نے اوشین گیٹ کے باس اسٹاکٹن رش کو غیر مستحکم قرار دیا اور کہا کہ رش کے ساتھ کام کرنا مشکل تھا۔ کوسٹ گارڈ پینل کے سامنے اب تک پیش کی گئیں شہادتیں ایک ایسی کمپنی کی تصویر پیش کرتی ہیں جو اپنی غیر روایتی طور پر ڈیزائن کردہ آبدوز کو پانی میں اتارنے کے لیے بے چین تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔