جوہری توانائی کے بغیر کاربن سے چھٹکارا ناممکن
ہندوستان، چین، بنگلہ دیش، ارجنٹائن، برازیل، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور متعدد افریقی ممالک جوہری توانائی میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ماڈیولر ری ایکٹروں کی بدولت یہ توانائی ان کے لیے زیادہ سستی ہے
متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 2023 کی اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی کانفرنس (کاپ 28) میں جوہری توانائی کی شبیہہ کو اس وقت تقویت ملی، جب 198 ممالک نے جوہری توانائی کو کم اخراج والی ٹیکنالوجیز کی فہرست میں شامل کیا، جن کو بڑھانے کی ضرورت ہے اگر دنیا فوسل فیول(جیواشم ایندھن) پر انحصار ختم کرنا چاہتی ہے ۔ اس کانفرنس سے جوہری توانائی کی ضرورت اور افادیت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا۔ لیکن جوہری پاور پلانٹس میں توانائی پیدا کرنے کے عمل سے پیدا ہونے والا انتہائی تابکار فضلہ، اور خرچ شدہ ایندھن (جوہری توانائی کے حصول میں صرف ہونے والا ایندھن) کا مسئلہ وقتاً فوقتاً تشویش کا باعث رہا ہے۔
خرچ شدہ ایندھن کے محفوظ انتظام سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے پہلے، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے جوہری توانائی کی نمو ، اور اس توانائی کو سمجھنے میں کاپ28 کے اعلامیہ سے جو فرق پڑ سکتا ہے پر گفتگو کرتے ہوئے ’اقوام متحدہ خبر نامہ‘ کو بتایا کہ جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جوہری توانائی کو عام کیے بغیر کاربن کے اخراج پر قابو پانا ممکن نہیں، تاہم اس مقصد کے لیے حکومتوں کو اس توانائی سے وابستہ منفی تاثر کو دور کرنا ہو گا۔ جوہری توانائی کئی طرح کی قابل تجدید توانائی سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ دنیا کو اصل خطرہ معدنی ایندھن سے ہے جو کرہ ارض کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔
اگرچہ جوہری توانائی زیادہ تر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں تاثر کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ 1985 میں موجودہ یوکرین کے علاقے چرنوبل اور 2011 میں جاپان کے شہر فوکوشیما میں پیش آنے والے جوہری حادثات ہیں۔ علاوہ ازیں، یوکرین پر روس کے حملے کے بعد وہاں ژیپوریژیا جوہری پلانٹ کو لاحق خطرات نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا ہے۔
گروسی کے مطابق عوامی تاثر، پالیسی اور جوہری توانائی کے بارے میں سمجھ بوجھ کے حوالے سے دبئی اعلامیے کی بہت اہمیت ہے۔ جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آج دنیا میں جتنی ماحول دوست اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا ہو رہی ہے اس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ آج یورپ میں پیدا ہونے والی مجموعی توانائی میں نصف حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ اسی لیے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی سال تک چرنوبل اور پھر فوکوشیما کی وجہ جوہری توانائی کے بارے میں بہت سی غلط اطلاعات عام رہی ہیں جنہوں نے اس توانائی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے۔
اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں بھی جوہری توانائی کے خلاف مزاحمتی رویہ دیکھنے کو ملا ہے حتیٰ کہ اسے سرے سے مسترد بھی کیا گیا ہے۔ اسی لیےکاپ 28میں جوہری توانائی کو قابل تجدید توانائی قرار دیا جانا ایک بڑا قدم تھا۔ اس موقع پر بہت سے اہم ممالک نے اپنی ہاں پیدا ہونے والی توانائی میں جوہری توانائی کی شرح تین گنا بڑھانے کے وعدے بھی کیے۔ گروسی نے اسے حقیقت پسندی سے تعبیر کیا۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی پر سائنس دانوں کے بین الاقوامی پینل نے اعتراف کیا ہے کہ جوہری توانائی کے بغیر 2050 تک کاربن کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ اسی لیے جوہری توانائی کی پیداوار بڑھے گی اورآئی اے ای اے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے گا کہ یہ اضافہ محفوظ طریقے سے ہو اور اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔
جوہری توانائی کے بارے میں پھیلی غلط اطلاعات کی مثال دیتے ہوئے گروسی نےکہا کہ ایک عام سوچ یہ ہے کہ فوکوشیما جوہری حادثے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت جاپان میں آنے والے سونامی سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے لیکن تابکاری سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اعدادوشمار کے مطابق جوہری توانائی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد دیگر طرح کی قابل تجدید توانائی کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ گروسی نے دلیل دی کہ بہت سے لوگ فضائی حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن لوگ جہازوں پر سفر کرنا ترک نہیں کرتے۔ لہذا حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا جوہری توانائی پر 100 فیصد انحصار کرنے لگے، بلکہ بیک وقت کئی طرح کی توانائی سے موثر طور پر کام لینا ہوگا جس میں جوہری توانائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔
گروسی نے اعتراف کیا اگرچہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں ایک اہم مسئلہ ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے مالی مدد دینا ہے لیکن جوہری بجلی گھروں کے لیے خطیر رقم درکار ہے اور اس وقت عالمی سطح پر جوہری توانائی کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ گروسی کے مطابق ہندوستان سے چین، ارجنٹائن سے برازیل، میکسیکو، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ تک دنیا کے جنوبی حصے میں جوہری توانائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ افریقہ کے متعدد ممالک بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ماڈیولر ری ایکٹروں کی بدولت یہ توانائی ان ممالک کے لیے زیادہ سستی ہے۔
آئی اے ای اے جوہری توانائی کے فوائد اور اس کے امکانات کی بات کرتا ہے۔ ساتھ ہی ادارہ جوہری سلامتی کا بھی ذمہ دار ہے۔ دونوں ذمہ داریاں بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہیں لیکن گروسی اسے کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوکرین میں جوہری تنصیبات (ژیپوریژیا جوہری پاور پلانٹ) پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ دراصل جنگ ہے جو اس پلانٹ کے ارد گرد ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 440 جوہری ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جن میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ اسی لیے آئی اے ای اے یوکرین میں کسی حادثے سے بچنے کے لیے اتنی فعال رہی ہے۔ کسی بھی اہم صنعتی سرگرمی کی طرح جوہری توانائی کا حصول بھی خطرات مول لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جوہری فضلہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اسے ٹھکانے لگانے کا اچھی طرح انتظام کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار محدود ہوتی ہے۔ تجارتی بنیادوں پر 70 سال سے جاری کام میں کبھی اس فضلے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے معدنی ایندھن کرہ ارض کو لاحق بہت بڑے خطرات کا سبب ہے۔
آئی اے ای اےکی لیبارٹریوں میں سائنسی اور جوہری تحقیق جاری ہے۔ ایجنسی اونکولوجی اور ریڈیو تھراپی جیسے شعبوں میں ترقی پذیر ممالک کی جوہری ٹیکنالوجی سے کام لینے کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد مہیا کرتی ہے۔ جوہری توانائی ایریڈی ایشن (شعاع ریزی) ٹیکنالوجی کے ذریعے غذائی تحفظ بھی مہیا کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فصلوں کو گلنے سڑنے سے بچانے، خشک سالی کا مقابلہ کرنے والے بیجوں کی تیاری، کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کرنے اور زکا وائرس یا ملیریا کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کووڈ۔19 وبا کے بعد جرثوموں اور جانوروں سے پھیلنے والے وائرس اور امراض کی بروقت نشاندہی کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ آئی اے ای اے کا دوسرا رخ ہے جہاں جوہری توانائی سے ترقی کے کام میں مدد لی جا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔