گاؤں سے شہر تک... وصی حیدر
یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ ان ابھرتے ہوئے گاؤں اور شہروں کی پوری آبادی صرف کھیتی کیا کرتی تھی۔ کھیتی کرنے والے کسان بھی کچھ حد تک شکار اور جنگلوں سے پھل اکھٹا کرتے تھے۔
(25 ویں قسط)
تاریخ داں مہر گڑھ جیسی جگہوں پر کھیتی کی شروعات (ق م 7000) سے ہڑپا تہذیب کے زوال (5000 سال بعد) کے وقت کو آسانی سے سمجھنے کے لئے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا کھیتی کی شروعات (5500-7000 ق م) کا وقت، دوسرا ہڑپا تہذیب کی شروعات کا وقت (2600-5500 ق م) تک، تیسرا جب ہڑپا تہذیب اپنے پورے شباب (1900-2600 ق م) تھی اور چوتھا (1300-1900 قم م) کا وقت جب ہڑپا تہذیب کا زوال ہوا۔
یہ بھی پڑھیں : ہڑپا اور موہن جودارو… وصی حیدر
پہلا زمانہ مہر گڑھ اور اس کے ساتھ کئی اور جگہوں پر B.C 7000 کے آس پاس کھیتی کرنے والے پہلے گاؤں شروع ہوئے، کھیتی اور گاؤں کی سکونت کے ساتھ ہی آبادی ایکدم تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی اور یہ دنیا میں ہر اس جگہ ہوا جہاں شکار کی تلاش میں خانہ بدوشی کی زندگی کو چھوڑ کر اناج کی کھیتی شروع ہوئی۔ اس علاقے میں اس کی مثال کوئٹا وادی میں کِل گل محمد (ق م5000)، بلوچستان میں دم سادات(ق م 3500)، افغانستان میں منڈی گاک (ق م 3500-4000)۔ سندھ کے امری (ق م 3600)، پختونخوا صوبہ کے رحمان گڑھی (ق م 3300)، ہریانہ کے کنال اور راکھی گڑھی (ق م 3600-4500)، اور بھرانا میں اور پہلے۔ ان تمام جگہوں پر کھیتی کی شروعات اس بات کی شہادت ہیں کہ ق م 7000 کے بعد اس پورے علاقہ میں کھیتی کرنے کا رواج بہت تیزی سے پھیل رہا تھا۔
یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ ان ابھرتے ہوئے گاؤں اور شہروں کی پوری آبادی صرف کھیتی کرتی تھی۔ کھیتی کرنے والے کسان بھی کچھ حد تک شکار اور جنگلوں سے پھل اکھٹا کرتے تھے۔ ان کے علاقہ میں کسانوں کے ساتھ ساتھ خانہ بدوش قومیں بھی رہیں۔ مہر گڑھ کا علاقہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ہے اور وہاں کی پہاڑیوں میں رہنے والے تو صرف خانہ بدوش قومیں ہی تھیں جو کلت، کوئٹا اور لورائی کے علاقہ میں رہتی تھیں، سخت سردی کے دوران کچی کے میدان میں آجاتے تھے اور فروری کے آخر میں بھر پہاڑوں پر واپس اپنی بھیڑوں اور جانوروں کے ریوڑ کو لیکر واپس جاتے تھے۔ اس طرح کا طریقہ کار اب بھی کشمیر اور بلوچستان کے براہس کرتے ہیں۔
تاریخ داں یہ مانتے ہیں کہ اس طرح کی خانہ بدوش گھومنے والی قوموں نے شروع کی زراعتی نظام میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک علاقہ سے دوسری جگہوں پر نئی ایجادات اور زراعت کے نئے طریقوں کو پہنچانے کا کام انھیں گھومنے والی قوموں نے کیا۔
زراعتی نظام کے پھیلنے کا دوسرا دور ہڑپا تہذیب کا شروعاتی وقت ہے جب بڑھتی ہوئی آبادی نئی نئی جگہوں پر پھیلتی گئی اور ان میں بڑی جگہوں مثلاً کالی بنگان، نباولی اور رحمان گڑھ کے علاقوں میں ابھرتے ہوئے شہروں میں حفاظتی حد بندیاں ہوئی۔ اور مختلف جگہوں پر ان کی انفرادی چیزیں کھدائی میں ملتی ہیں۔ مثلاً ہکرا، روی بالاکوٹ، امری کوٹ ڈبی، نال اور سوتھی کے برتنوں کی بناوٹ میں فرق دکھائی دیتا ہے۔ جو اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے، اس وقت تک ان جگہوں پر آپس میں تال میل کی کمی تھی جو آگے جاکر ختم ہوئی۔
اگلا دور سب سے زیادہ دلچسپ ہے جبکہ ہڑپا تہذیب اپنے پورے شباب پر پہنچی۔ اس زمانہ میں بہت سی نئی جگہوں پر آبادیاں پھیلیں اور کچھ پرانی جگہوں کو چھوڑ کر نئی جگہوں پر نئی آبادیاں گاؤں اور شہر ابھرے۔ اس زمانہ میں پورے ہڑپا علاقہ میں ایک زبان، مہریں اور ایک طرح کے وزن کرنے والے باٹ استعمال ہونا شروع ہوئے، دور دراز کی اور تہذیبوں سے تجارت کو بہت فروغ ہوا۔ مختلف جگہوں کی انفرادی خصوصیات کمزور ہوئیں اور تقریباً یکساں تہذیب اور طور طریقہ رائج ہوئے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ہڑپا تہذیب کو شروع ہو کر شباب پر پہنچنے میں تقریباً 5 پشتیں یعنی 150-100 سال لگے ہوں گے۔ لیکن یہ عمل بغیر کسی مرکزی حکومت کے ممکن نہیں ،جن کے احکامات پورے علاقہ میں مختلف آبادیوں میں لاگو تھے۔ جو شہروں میں عام لوگوں کے لئے حفاظت، تجارت، پانی، سڑک اور دگر سہولتیں مہیا کرنے کا کام کرتے تھے۔
گاؤں سے شہر تک کے سفر کو ہم شاید بہتر طرح سے سمجھ سکتے ہیں اگر دنیا کے پہلے شہر اوروک (میسوپوٹامیا) کو سمجھ پائیں۔ اس کا ذکر اگلی قسط میں ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔