ہیلتھ کیئر کے معاملے میں بھارت 195ملکوں میں 145ویں نمبر پر
عالمی طبی تحقیقی جریدے لانسیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیلتھ کیئر کے معاملے میں بھارت اپنے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش،سری لنکا اور بھوٹان سے پیچھے ہے جب کہ چین سے بھی بہت پیچھے ہے۔
لانسیٹ کی رپورٹ کے مطابق تپ دق، امراض قلب، فالج،کینسر،گردے کی بیماریوں وغیرہ سے نمٹنے کے معاملے میں بھارت کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سری لنکا، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک ہیلتھ کیئر کے معیار اور اس تک رسائی کے معاملے میں بھارت سے کہیں آگے ہیں۔ 195ملکوں کی فہرست میں سری لنکا 71ویں، بنگلہ دیش 133ویں اور بھوٹان 134ویں مقام پر جب کہ چین، بھارت سے بہت آگے 48ویں مقام پر ہے۔ بھارت بہر حال نیپال، پاکستان اور افغانستان سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ یہ ممالک بالترتیب 149ویں، 154ویں اور 191نمبر پر ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج ہیلتھ کیئرکو معیاری بنانے اور ان تک سماج کے تمام طبقات تک رسائی کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں بصورت دیگر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو‘صحت خدمات فراہم کرنے والوں اور بیماریوں سے پریشان عوام کے درمیان‘ بڑھتے ہوئے خلیج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
لندن اور امریکہ سے شائع ہونے والے جرنل لانسیٹ نے اپنی رپورٹ کی تیاری میں ہیلتھ کیئر کے میعار اور اس تک رسائی کا ماپنے کے لیے اموات کے ایسے 32 اسباب، جنہیں موثر طبی دیکھ بھال کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے، کو بنیاد بنایا ہے۔ 195ملکوں میں سے ہر ایک ملک کا صفر سے 100 کے اسکور کی بنیاد پر تجزیہ کیا گیا۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ، دہلی میں فیلو پرتیما یادو کا بھارت میں معیاری ہیلتھ کیئر کی کمی کے حوالے سے کہنا تھا ”حالانکہ حکومت نے 'آیوش مان بھارت‘ کے نام سے گذشتہ برس ستمبر میں ہیلتھ انشورنس کی ایک نہایت وسیع اسکیم شروع کی ہے۔ اس اسکیم کو بلا شبہ دنیا میں اب تک کسی بھی ملک میں شروع کیا گیا سب سے بڑا سوشل ہیلتھ انشورنس پروگرام کہا جاسکتا ہے لیکن اس میں بہت ساری بنیادی چیزوں کی وضاحت نہیں ہے۔ مثلاً یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ پرائمری ہیلتھ مراکز کو کس طرح مالی مدد دی جائے گی اور انہیں کیسے مستحکم بنایا جائے گا۔" پرتیما یادو کا کہنا تھا کہ جو دستاویزات اور شواہد دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ محض انتخابی نعرہ ہے یا واقعی ایک اہم اسکیم۔"
خیال رہے کہ آیوش مان بھارت اسکیم کے تحت حکومت نے دس کروڑ غریب خاندانوں کو سالانہ پانچ لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس دینے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح تقریباً پچاس کروڑ افراد کا احاطہ کیا جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے سن 2017 میں نیشنل ہیلتھ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ جس میں سن 2025 تک صحت پر سرکاری فنڈنگ کو دھیرے دھیر ے بڑھا کر جی ڈی پی کا 2.5% کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ لیکن اس پالیسی میں اس با ت کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔ اس وقت بھارت کی مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد کے قریب صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔
لانسیٹ کی تازہ ترین رپورٹ پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارت کے سب سے مشہورطبی ادارہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دہلی کے ڈاکٹر شاہ عالم خان نے ٹوئیٹ کیا ”بھارت کا ہیلتھ کیئر سسٹم شام سے بھی بدترین ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ہمارے یہاں عراق سے بھی زیادہ ہے۔ بھکمری کا بھارت کا انڈکس سب سہارا افریقہ سے بھی بدترین ہے۔ کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے صرف جنگ ہی ضروری نہیں ہے ایک ناکارہ حکمراں طبقہ بھی یہ کام آسانی سے کرسکتا ہے۔
ایلوا راسو نامی ایک صارف نے لکھا ”اگر کیرالہ اور تمل ناڈو کو چھوڑ کر نتیجہ اخذ کیا جاتا تو بھارت تو 195ویں نمبر پر ہوتا۔" دریں اثنا بھارت میں ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرنے والے حکومتی ادارہ نیتی آیوگ کے سکریٹری یادوویندر ماتھرنے بھی ملک میں ہیلتھ کیئر کی خراب صورت حال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے ملک کے ہیلتھ کیئر کے نظام کو 'ڈوبتے ہوئے جہاز‘ سے تعبیر کیا ہے جس پر فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔