دمشقی تلوار سازی کے طریقے پر تیار کردہ دنیا کا تیز ترین خنجر
دمشق کے ماہر لوھار انتہائی تیز اور لچک دار تلوار تیار کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ لیکن ایک جرمن دھات ساز نے اسی طریقے کو استعمال میں لاتے ہوئے دنیا کا تیز اور مہنگا ترین خنجر تیار کیا ہے۔
پینتالیس سالہ شائیڈلر نے اپنے 'سُپر خنجر‘ کو نیسمُک کا نام دیا ہے۔ شائیڈلر لوہار کو بچپن ہی سے تلواروں اور چاقوؤں کی جادوئی دنیا سے لگاؤ تھا۔ تلوار کی دھار طاقت اور قوت کی مظہر ہوتی ہے۔
شائیڈلر نے ہتھیاروں اور اوزاروں کی تاریخ پڑھی اور انہیں تیار کرنے کی ساڑھے تین ہزار سال قبل تک کی تراکیب سیکھیں۔ اپنی ورکشاپ میں اس نے انہی قدیمی فنون کو دوبارہ زندہ کیا۔ لارس شائیڈلر کہتے ہیں، ''کہا جا سکتا ہے کہ چھری یا چاقو دنیا کے قدیم ترین اوزاروں میں سے ایک ہے۔ روایتی طور پر دھات سازوں کے ہاں چاقو تیار کیا جانا انسانی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔‘‘
دمشقی فولاد سے تیار کردہ تلوار شاہکار فن پارہ سمجھی جاتی تھی۔ تلوار سازی کا یہ طریقہ شام سے شروع ہوا۔ اس جیسی تیز دھار کسی اور ہتھیار کی نہیں تھی اور لچک دار ہونے کے باعث بھی یہ تلوار لاثانی تھی۔ شمشیر زنی کے مقابلوں میں یہ ناقابل شکست تھی اور اسے صرف انتہائی ماہر لوہار ہی تیار کرتے تھے۔
دمشقی انداز میں تلوار سازی انتہائی محنت طلب کام ہے۔ شائیڈلر اور اس کے ساتھی کو کئی تہوں پر مبنی بلیڈ کو تیس سینٹی سینٹی میٹر تک لانا پڑتا ہے۔ پھر انتہائی گرم اسٹیل کی تہہ در تہہ ایک دوسرے پر رکھا جاتا ہے اور یہ عمل 480 تہوں تک دہرایا جاتا ہے۔
ابتدائی کام مکمل ہونے کے چند دنوں بعد شائیڈلر بلیڈ کی جیومیٹری پر کام شروع کرتے ہیں۔ بلیڈ جتنا پتلا ہو، اس کی دھار اتنی ہی تیز ہوتی ہے۔
چاقو یا خنجر کی خاص شکل نکالنے کے لیے وہ اسے مخصوص تیزاب میں ڈبوتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک پیٹرن بن جاتا ہے۔ دھار انتہائی خوبصورت بھی ہے اور انتہائی تیز بھی۔
لارس شائیڈلر کہتے ہیں، ''اس کی بنیاد روایتی آہن سازی پر مبنی ہے۔ پھر عصر حاضر کی جدید تکنیک اور زنگ سے بچاؤ کے جدید طریقے بھی استعمال میں لائے جاتے ہیں۔‘‘
ڈریسڈن میں قائم ادارے فراؤن ہوفر میں مناسب ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ محققین نے دھار کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی سخت کوٹنگ ایجاد کی ہے۔ بہترین دستکاری اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی قیمت بھی ہے۔ ایک نیسمُک چاقو کی قیمت چار ہزار یورو ہے۔
اختتامی آرائشی مرحلہ چاقو کو حتمی شکل دیتا ہے۔ اس کی دھار ناقابل یقین حد تک پتلی ہے، دھار ایک ملی میٹر کے ہزارویں حصے جتنی ہے اور یہ اس قدر تیز ہے کہ بال کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔