تجارتی خلائی صنعت: کامیاب نجی اسپیس واک
ارب پتی جیرڈ آئزاک مین اور اسپیس ایکس انجینئر سارہ گیلس خلائی چہل قدمی کرنے والوں کے اس مخصوص گروپ میں شامل ہو گئے ہیں جس میں اب تک درجن بھر ممالک کے صرف پیشہ ور خلاباز شامل تھے
اسپیس ایکس کے پولارس ڈان مشن نے 12 ستمبر کو پہلی نجی اسپیس واک کے ساتھ تاریخ رقم کی جب دو خلابازوں نے اسپیس ایکس ڈریگن کیپسول سے باہر نکل کر دنیا کی پہلی نجی اسپیس واک کی۔ ٹیک صنعتکار جیرڈ آئزاک مین اور اسپیس ایکس انجینئر سارہ گیلس نے اسپیس واک کرنے والی پہلی شہری جوڑی بن کر تاریخ رقم کی۔ آئزاک مین نے اسپیس ایکس کے بالکل نئے اسپیس سوٹ کی جانچ کرنے کے لیے ایلون مسک کی کمپنی کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ ناسا نے اسے تجارتی خلائی صنعت کے لیے 'ایک بڑی چھلانگ' کے طور پر سراہا ہے۔ کمرشل اسپیس واک اس پانچ روزہ پرواز کا بنیادی مرکز تھا جس کی مالی اعانت جیرڈ آئزاک مین اور ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے کی ہے، اور سالوں کی ترقیاتی کوششوں کا نتیجہ ہے جو مریخ اور دیگر سیاروں کو آباد کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔
زمین سے سیکڑوں میل کی بلندی پر اس جرات مندانہ کوشش کے دوران آئزاک مین اور ان کا عملہ اس وقت تک انتظار کرتا رہا جب تک کہ ان کا کیپسول ہیچ (دروازہ) کھولنے سے پہلے ڈی پریشرائز نہ ہو جائے۔ اس طرح، آئزاک مین اسپیس واکرز کے ایک چھوٹے سے ایلیٹ گروپ میں شامل ہونے والے پہلے شخص بن گئے جس میں اب تک درجن بھر ممالک کے صرف پیشہ ور خلاباز شامل تھے۔ یہ خلائی چہل قدمی آسان اور تیز تھی۔ ناسا کے طویل دورانیہ کے مقابلے اس مشن میں ہیچ بمشکل آدھا گھنٹہ کھلا تھا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے خلابازوں کو مرمت کے لیے اکثر اسٹیشن کے باہر جانے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہمیشہ جوڑے میں اور سامان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ان کی خلائی چہل قدمی سات سے آٹھ گھنٹے تک ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ مشن دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ختم ہو گیا۔
اسپیس ایکس پولارس ڈان مشن 10 ستمبر کو فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے شروع کیا گیا تھا جو 1970 کی دہائی میں اپولو پروگرام کے بعد نصف صدی میں سب سے زیادہ گہرائی میں چلا گیا تھا۔ ڈریگن خلائی جہاز 1400 کلومیٹر (870 میل) کی بلندی پر پہنچ گیا تھا۔ خلائی چہل قدمی کے لیے مدار نصف کم کر کے 700 کلومیٹر (435 میل) کر دیا گیا۔ عملے کے چاروں ارکان نے اپنے آپ کو سخت خلا (ویکیم) سے بچانے کے لیے نئے اسپیس واکنگ سوٹ پہن لیے اور 12 ستمبر کی صبح، خالص آکسیجن ان کے سوٹوں میں بھرنا شروع ہو گئی جو ان کی خلائی چہل قدمی کے آغاز کی نشاندہی کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد، آئزاک مین نے ہیچ کھولا اور ہاتھ اور پیروں سے پکڑ کر 'اسکائی واکر' نامی ڈھانچے پر چڑھ گیا، نیچے زمین کا ایک دلفریب منظر تھا۔ اس نے کیلیفورنیا میں مشن کنٹرول کو بتایا کہ یہ بہت خوبصورت ہے۔ تقریباً 10 منٹ باہر رہنے کے بعد، آئزاک مین کو گلیس نے تبدیل کر دیا۔ وہ بے وزنی میں کیپسول سے باہر اوپر نیچے ہو رہی تھیں، لیکن گھٹنوں سے زیادہ نہیں۔ انہوں نے اپنے بازو گھمائے اور مشن کنٹرول کو رپورٹس بھیج دیں۔ ان دونوں کے پاس 3.6-میٹر (12 فٹ) ٹیتھرز (رسی) تھے لیکن انہوں نے ان کو نہیں کھولا یا لٹکایا جیسا کہ خلائی اسٹیشن پر ہوتا ہے، جہاں خلاباز معمول کے مطابق بہت کم مدار میں تیرتے ہیں اور ان کا استعمال کرتے ہیں۔
ہیچ کھلنے سے پہلے، عملہ اپنے خون سے نائٹروجن کو نکالنے کے لیے 'پری بریتھ' کے طریقہ کار سے گزرا تاکہ 'ڈی کمپریشن' کو روکا جا سکے۔ اس کے بعد کیبن کے دباؤ کو خلا کے ویکیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے آہستہ آہستہ کم کیا گیا۔ کیپسول کے اندر واپس آنے سے پہلے، آئزاک مین اور سارہ گیلس نے اسپیس ایکس کے اگلی نسل کے سوٹ پر حرکت کے ٹیسٹ کرنے میں چند منٹ گزارے جن میں ہیڈز اپ ڈسپلے، ہیلمٹ کیمروں اور بہتر مشترکہ نقل و حرکت کا نظام شامل ہیں۔ خلائی چہل قدمی ایک گھنٹہ 46 منٹ بعد کیبن میں دوبارہ دباؤ بننے کے بعد ختم ہوئی۔
نجی طور پر فنڈڈ پولارس ڈان مشن میں عملے کے چار ارکان تھے – جیرڈ آئزاک مین، سابق ایئر فورس تھنڈر برڈ پائلٹ اسکاٹ پوٹیٹ، اور اسپیس ایکس کی انجینئرز سارہ گیلس اور اینا مینن۔ آپریشن کی منصوبہ بندی میں غلطی کی بہت کم گنجائش تھی۔ تاہم، کچھ خرابیاں تھیں۔ آئزاک مین کو بٹن دبانے کے بجائے دستی طور پر ہیچ کو کھولنا پڑا۔ باہر جانے سے پہلے، گیلس نے ہیچ سیل میں خرابی کی اطلاع دی۔ اسکاٹ پوٹیٹ اور اینا مینن کیپسول کے اندر سے نگرانی کے لیے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ عملے کے ان چاروں ارکان نے سفر سے پہلے سخت تربیت حاصل کی تھی۔ اسپیس ایکس کے تبصرہ نگار نے کہا کہ یہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ اسپیس واک کے اختتام کے بعد مبارکباد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے X کے ذریعے کہا، آج کی کامیابی تجارتی خلائی صنعت کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے۔
یہ اسپیس ایکس کے لیے ایک اور اہم سنگ میل تھا، جس کی بنیاد ایلون مسک نے 2002 میں رکھی تھی۔ ابتدائی طور پر صنعت کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد، اسپیس ایکس ایک پاور ہاؤس بن گیا ہے جس نے 2020 میں ناسا کے خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک سواری فراہم کرنے کے لیے ایک اسپیس شپ فراہم کرنے میں ایرو اسپیس دیوقامت بوئنگ کو شکست دی۔ حالانکہ یہ تجارتی شعبے کے لیے پہلی ہے، لیکن یہ اسپیس واک ابتدائی خلائی دور کے کارناموں سے کمتر تھی۔ ابتدائی خلائی مسافر جیسے سوویت خلاباز الیکسی لیونوف ٹیتھرز پر اپنے خلائی جہاز سے دور چلے گئے تھے، اور کچھ منتخب خلائی شٹل خلابازوں نے مکمل طور پر غیر منسلک پرواز کے لیے جیٹ پیکس کا استعمال کیا تھا۔
دولت مند مسافر چند منٹوں کے بے وزن ہونے کا تجربہ کرنے کے لیے نجی راکٹوں پر سوار ہونے کے لیے بھاری رقم دے رہے ہیں۔ دوسروں نے کئی دن یا ہفتوں تک خلا میں رہنے کے لیے لاکھوں خرچ کیے ہیں۔ خلائی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ناگزیر ہے کہ کچھ لوگ خلائی چہل قدمی میں سنسنی کی تلاش کریں گے، جسے لانچ اور مدار میں دوبارہ داخلے کے بعد خلائی پرواز میں سب سے خطرناک سمجھا جاتا ہے، بلکہ یہ سب سے زیادہ روح کو ہلا دینے والا بھی ہے۔
آئزاک مین کی عمر 41 سال ہے۔ وہ شفٹ4 کریڈٹ کارڈ پروسیسنگ کمپنی کے بانی اور سی ای او ہیں۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ اس فلائٹ میں انہوں نے کتنی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ پولارس نامی پروگرام کے تحت تین پروازوں میں سے پہلی تھی اور اسے پولارس ڈان کہا جاتا ہے۔ 12 ستمبر تک صرف 263 افراد نے 12 ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے اسپیس واک کی تھی۔ سوویت یونین کے الیکسی لیونوف نے اسے 1965 میں شروع کیا تھا اور اس کے چند ماہ بعد ناسا کے ایڈ وائٹ نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔