سائنس: وقت کی دھارا..پارٹ 2
Ionia کے دانشوروں کی قدرت کے رازوں کو جاننے کا سلسلہ اس لئے بھی آگے نہیں بڑھ پایا کیونکہ ان کے نظریات میں تجربوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور بے جان اور جاندار چیزوں کے قوانین میں کوئی فرق نہیں تھا۔
پچھلے مضمون میں Ionia شہر کے آس پاس دانشوروں کا ایک سیلاب سا 500-600 BC میں دکھائی دیتا ہے؛ یہ ایک انقلابی سمجھ پیدا ہوئی کہ قدرت میں ہو نے والے واقعات کو چند قوانین کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا اثر صرف چند صدیوں تک ہی رہا اور قدرت کے رازوں کو سمجھنے کی اس جد وجہد کو لوگوں نے چھوڑ دیا ۔ اس کی خاص وجہ شائد یہ تھی Ionia کے دانشوروں کے نظر یات میں دیوی ، دیوتاؤں ، پوجا پاٹ کا کوئی دخل اور ذکر نہیں تھا اور یہ چیز یو نان کے زیادہ تر لوگوں اور مذہبی دانشوروں کے لئے پریشان کن تھی ۔ ان لوگوں میں ایک فلسفی Epicurus (341-270 BC) تھا۔ جو آئٹم کے تصور کے خلاف تھا اس کا کہنا تھا کہ ان بہکے ہوئے دانشوروں کی باتوں کو ماننے سے بہتر ہے کہ دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں پر یقین کو ثابت رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیں۔ نظام کائنات سمجھنے کی حیرت انگیز کامیابیاں!
ارسطو بھی آئٹم کے نظریہ کے خلاف تھا کیونکہ جیسا کہ اب بھی بہت لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انسان اور تمام جاندار بھی انہی آئٹموں سے بنے ہیں جن سے باقی تما م بے جان چیزوں بنی ہیں۔ لوگوں کے لئے یہ ماننا مشکل تھا کہ انسان اور ہماری دنیا کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ ان وجوہات سے Ionia کے دانشوروں کے حیرت انگیز کامیابیوں کو چھوڑ دیا اور تقریباً 20 صدیوں بعد ہی Galileo (1564-1642 AB)کے ساتھ ہی قدرت کے رازوں کو جاننے کی سائنسی جدو جہد دوبارہ شروع ہوئی۔
Ionia کے دانشوروں کی قدرت کے رازوں کو جاننے کا سلسلہ اس لئے بھی آگے نہیں بڑھ پایا کیونکہ ان کے نظریات میں تجربوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور بے جان اور جاندار چیزوں کے قوانین میں کوئی فرق نہیں تھا۔ قدرت میں ہونے والے واقعات کیوں ایسے ہوتے ہیں ان سوالوں کے جواب نہیں تھے۔500 BC میں Anaximander کا یہ کہنا تھا کہ تمام چلتی ہوئی چیزیں اپنے قدرتی Centre کی طرف جاتی ہیں ورنہ ان کو دیوتاؤں کو ہرجانہ دینا پڑےگا۔Heraclitus (525-475 BC) کا یہ ماننا تھا کہ انصاف کی دیوی سورج کو ختم کر دے گی اگر سورج اپنے راستے سے ذرا بھی بھٹکے گا۔
300 BCکے آس پاس یونان کے شہر Stoics کے دانشوروں نے جاندار اور بے جان چیزوں کے قوانین کو الگ الگ درجہ دیا۔ بےجان چیزوں کے قوانین کا نفاذ ضروری سمجھا گیا اور ان قوانین میں دیوی دیوتا اپنی مرضی سے کبھی بھی تبدیلی کر سکتے ہیں یعنی بےجان چیزیں بھی سمجھ بوجھ کر قوانین پر عمل کر تے ہیں ۔ انسانوں سے تو سڑک پر چلنے کے قوانیں کا نفاذ کافی مشکل ہوتا ہے تو اگر بےجان چیزوں میں عقل ، سمجھ اور مرضی ہوتی تو کافی دلچسپ واقعات ہوتے مثلاً کرکٹ کی بال باؤنڈری کے پاس پہنچ کر اپنے راستے کو لوٹ جاتی۔یہی سمجھ کئی صدیوں تک رائج رہی۔
فلسفی 13 Thomas Aquinas (1225-1274) صدی میں اس بات پر زور دیتا تھا کہ خدا ہروقت بے جان چیزوں کو بھی حکم دیتا رہتا ہے جو سمجھ بوجھ کر ان قوانین پر عمل کر تی ہیں ۔ مشہور فلکیاتی سائنسداں Johannes Kepler (1571-1630)بھی یہی مانتا تھا کہ ستاروں اور سیاروں کو بھی عقل اور سمجھ ہوتی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر ہی اپنے راستوں پر چلتے ہیں ۔
پرانے زمانے کے فلسفیوں کی خاص توجہ اس بات پر تھی کہ چیزیں ایسے کیوں ہوتی ہیں بجائے اس کے کہ کیسے ہو رہی ہیں ۔ باریکی سے مشاہدہ کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی اہمیت نہیں تھی۔ ارسطو اس سمجھ کا پر زور حامی تھا۔ سائنس کا طریق کار کہ مشاہدہ کو سمجھ کی بنیاد ہونا چاہئے ابھی رائج نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت Accurate مشاہدہ کرنا پرانے زمانے میں بہت مشکل تھا۔حساب کتاب کی تقریباً سن 700 کے بعد ہی ممکن ہو پائی جب ہندوستان نے زیرہ کی سمجھ دی اور گنتی کی بنیاد 10 نمبروں پر قائم ہوئی۔ Plusاور Minusکی Signجس کے استعمال سے جوڑنا گھٹانا آسان ہو گیا 15 ویں صدی میں رائج ہوئی اور ایسی گھڑیاں جو ایک سیکنڈ کا وقفہ ناپ پائیں وہ 16 ویں صدی میں ہی ایجاد ہو پائیں ۔ لہٰذا کوئی بھی بہت باریکی سے مشاہدہ کرنا پرانے زمانے میں تقریباً ناممکن تھا۔
ارسطو کو مشاہدہ پر اعتراض نہیں تھا لیکن ان کے نتیجوں کو بغیر اہمیت دئیے ہوئے وہ پیشن گوئی کرتا تھا صرف ذہنی طور سے جو چیزیں اس کو مناسب معلوم ہوتی تھیں انھیں کو اس کی باتوں میں فوقیت تھی۔ تجرباتی نتیجہ جو ارسطو کی سمجھ کے خلاف تھے ان کو کسی نہ کسی طرح غلظ ثابت کرنا یا بغیر اپنی سمجھ کو بدلے ایک پیوند کی طرح استعمال کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ زمین پر گرتے وقت تمام چیزیں بغیر تبدیلی کے ایک رفتار سے گرتی ہیں۔ جب مشاہدہ کر کے یہ صاف دکھائی دیا کہ سبھی چیزوں کی رفتار وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے تو ارسطو نے یہ کہا کہ یہ چیزیں جیسے جیسے زمین کی طرف آتی ہیں تو زیادہ جوش و خروش سے بڑھتی ہیں۔ یہ بات شاید لوگوں کے لیے تو کچھ حد تک صحیح ہو لیکن بے جان چیزوں میں جوش و خروش کی بات شاید اب کوئی بھی نہ مانے۔
ارسطو کا نظریہ کسی بھی پیشین گوئی کے لیے بے کار تھا لیکن اس کے قد اور حیثیت کی وجہ سے اس کا اثر ساری سوچ سمجھ پر تقریباً 2000 سال تک چھایا رہا۔
یونان کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد شروع کے عیسائی فلسفیوں نے بھی اس نظریہ کو کہ ’’قدرتی واقعات چند قوانین کے تحت ہوتے ہیں‘‘ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے خیال سے آدمی اور یہ دنیا ہی پوری کائنات کا محور ہے اور ان سبھی کا یہ ماننا تھا کہ ساری کائنات خداؤں کا گڑ یا گھر ہے۔ اور اس کے رازوں کو جاننا ناممکن ہے۔ پوپ John XXI کی ہدایت پر پیرس کے پادریTempier نے 1277 میں 219 چیزوں کے ذکر کو قانونی طور پر گناہ کی فہرست میں رکھا۔ ان میں خاص طور سے وہ تحقیقات شامل تھیں جن کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ’’کائناتی واقعات مثلاً سورج یا چاند گرہن کسی قانون کے تحت ہوتے ہیں بڑے گناہوں میں شامل ہو گئیں۔ کیونکہ یہ چیزیں خداؤں کی مرضی اور طاقت پر سوال کھڑا کرتی ہیں۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ کہGravity کے قانون کی وجہ سے پوپ جان کے گھر کی کمزور چھت کچھ ہی مہینوں بعد گر گئی اور اس میں ہی پوپ کا انتقال ہو گیا۔
کائناتی قانون کا Modern نظریہ 17ویں صدی میں Kepler کے سیاروں کے گھومنے کے تین قوانین کے ساتھ ہی شروع ہوا حالانکہ وہ خود یہ سوچتا تھا کہ سیارے دیوتاؤں کے ڈر کے مارے خاص طرح سے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ Galilio (1564-1642) نے قدرت کے بہت سارے قوانین معلوم کیے لیکن اس نے بھی اپنی کتاب میں قوانین کا لفظ نہیں استعمال کیا۔ اس نے سائنسی تحقیقات میں اس بات پر بہت زور دیا کہ ہم کو ان بنیادی رشتوں کو معلوم کرنا ہے جو ہمارے چاروں طرف ہونے والی چیزوں میں ہیں۔ Rene Descarte (1596-1650) شاید پہلا سائنس داں تھا جس نے قوانین کے نظریہ اور اس کی اہمیت اور پیشین گوئی کی طاقت کو پہچانا۔ Descarte کو اس پر یقین تھا کہ قدرت میں ہونے والے سارے واقعات کو ہم چیزوں کے چلنے (movements) کے تین قوانین کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ تین قانون ہر جگہ اور ہر وقت کھرے ہوں گے اور ان قوانین کے نفاذ کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ بے جان چیزوں میں عقل ہوتی ہے کہ وہ سمجھ بوجھ کر ان قوانین پر عمل کریں۔
اس کے بعد Newton (1643-1727) آئے۔ جیسا کہ Alexander Pope نے کہا، سوچ سمجھ پر چھایا اندھیرا چھٹ گیا اور سائنس کے قوانین کی روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔ اس کے Gravitational کشش اور چیزوں کے Motion کے تین قوانین نے لوگوں کی سوچ سمجھ پر بہت اثر ڈالا۔ اس ریاضیات میں ایک نیا Discipline شروع کیا۔ نیوٹن کے سائنسی تحقیقات کے نتیجوں کا اثر اس قدر گہرا اور دور رس ہے کہ آج بھی اس کے قوانین کو پڑھایا جاتا ہے۔ ان کا استعمال بڑی عمارت کو ڈیزائن کرنے میں، کار کی بناوٹ میں، ہوائی جہاز اور راکٹ کی پرواز میں اور دسیوں دیگر چیزوں میں اب بھی ہوتا ہے۔
قانون کیا ہے اور کیا چیز قانون نہیں ہو سکتی، یہ فلسفیوں کے لیے نہایت اہم اور باریکی سے سمجھنے کا موضوع ہے۔ یہ بات نیچے بیان کی گئی مثال سے واضح ہوگی۔
’’تمام سونے کے گولے ایک میل سے کم Radius کے ہوں گے‘‘ کیا اس جملہ کو قدرت کے قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ شاید کوئی سونے کا گولا ایک میل سے بڑا نہیں ہوگا لیکن کیونکہ بظاہر کوئی وجہ نہیں، ایک سونے کا کوئی گولا ہمیشہ ایک میل سے کم ہو۔ اس لیے اوپر بیان کردہ جملہ قدرت کے قانون کا درجہ نہیں پائے گا۔
اس کے برخلاف اگر یہ کہیں کہ یورینیم (235) کا کوئی بھی گولا ایک میل سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ ہم کو نیوکلیر فزکس کی تحقیقات سے یہ معلوم ہے کہ یورینیم (235) کا گولا اگر چھ انچ سے بڑا ہو تو فوراً Fission شروع ہو جائے گا اور وہ گولا پھٹ پڑے گا۔ یہی ایٹم بم کا بنیادی طریقہ ہے۔ ان باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ یورینیم کا گولا کسی بھی صورت میں ایک میل سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یعنی اس بات کو قدرت کے قانون کا درجہ حاصل ہوگا۔
Laplace (1749-1827) شاید پہلا سائنسداں تھا جس نے بہت پرزور طرح سے قدرت کے قوانین کی اہمیت اور ان کے استعمال سے (بغیر کسی طرح کے دیوتاؤں کے دخل) پیشین گوئی کرنا جس میں کسی طرح کے معجزہ کی گنجائش نہیں ہو اس کو سائنس کا درجہ دیا۔ Laplace کے مطابق وہ چیز قدرت کا قانون ہی نہیں ہے جس میں دیوتاؤں نے طے کر لیا کہ فی الحال کوئی دخل اندازی نہیں کریں گے۔ اس چیز کو سن کر نپولین نے Laplace سے پوچھا کہ قدرت کے قوانین میں کہیں خدا کا کوئی ذکر کیوں نہیں؟ اس پر Laplace نے یہ جواب دیا کہ مجھ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں پڑی۔
بقیہ باتیں اگلے حصہ میں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Jan 2018, 10:05 PM