کائنات کی سمجھ کی تاریخ (پانچویں قسط)... وصی حیدر
’’وقت کب شروع ہوا‘‘ اس بات سے کچھ سائنسداں ناخوش تھے اور یہ کہ کائنات ایک عظیم دھماکہ سے شروع ہوئی اس چیز سے بچنے کی کئی کوشیشیں کی گئی۔
روسی فلکیاتی سائنسدان فریمان نے جب آئنسٹائن کی گریوٹی کی ایکوئشن کو حل کیا تو اس نے یہ پایا کہ ساری کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جارہی ہیں۔ اس کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ساری کہکشائیں جیسے ایک غبارہ پر کالے دھبے ہیں۔ جب ہم غبارہ کو پُھلاتے ہیں تو یہ سارے دھبے ایک دوسرے سے دور جاتے ہیں اور کوئی دھبہ بھی محور نہیں ہے۔ اسی طرح کہکشائیں دور جارہی ہیں اور جیسے جیسے غبارہ پھولتا جاتا ہے وہ دھبہ جو زیادہ دور ہیں وہ اور زیادہ تیز رفتاری سے دور جاتے ہیں۔ اسی طرح سے فریمان کے کائناتی خاکہ میں کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دور جانے کی رفتار ان کی دوری کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور اس وجہ سے دور کی کہکشاؤں سے آنے والی روشنی ڈاپلر اثر(Doppler Effect) کی وجہ سے زیادہ لال روشنی کی طرف کھسکی ہوگی۔ ان تمام پیشن گوئیوں کو 1929 میں ایڈون ہبل کی تجرباتی تحقیقات نے صحیح ثابت کردیا۔
یہ بھی پڑھیں : کائنات کی سمجھ کی تاریخ (چوتھی قسط)... وصی حیدر
حالانکہ فریمان نے کائنات کا ایک خاکہ بیان کیا لیکن ان کے دونوں فریضوں (Assumptions) کو دو اور خاکہ (Models) مطمئین (Satisfy) کرتے ہیں۔
فریمان کے خاکہ کے حساب سے کائنات دھیمی رفتار سے پھیل رہی ہے اور گریوٹیشنل کشش کی وجہ سے یہ رفتار کم ہوتی جائے گی اور آخر یہ پھیلنا بند ہوجائے گا اور پھر یہ کائنات سکڑنے لگے گی یعنی کسی بھی دو کہکشاؤں کی دوری زیرہ سے شروع ہوکر بڑھے گی اور ایک حد کے بعد کم ہونا شروع ہوجائے گی اور پھر یہ زیرو ہوجائے گی اور یہ ساری کہکشائیں ایک دوسرے میں مل جائیں گی۔
دوسرا کائناتی خاکہ وہ ہے کہ کائنات زیادہ تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے اور گریوٹیشنل کشش اس رفتار کو دھیما تو کرتی ہے لیکن اس کے پھیلنے کو نہیں روک پائے گی۔ یعنی کائنات ہمشہ پھیلتی ہی جائے گی۔
تیسرا کائناتی خاکہ وہ ہے جس میں کائنات صرف اس رفتار سے پھیل رہی ہے کہ گریوٹیشنل قوت اس کی رفتار کو کم تو کرتی رہے گی لیکن وہ کائنات کو سکڑنے پر کبھی بھی مجبور نہیں کر پائے گی۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ فریمان کے تین خاکوں میں کون سا خاکہ ہماری کائنات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ کیا ہماری کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی یا کبھی پھیلنا بند ہوگی اور کائنات سکڑنا شروع کردے گی۔ اس سوال کے صحیح جواب کے لئے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے۔ پہلا تو یہ کہ اس وقت کس رفتار سے پھیل رہی ہے اور دوسرا یہ کہ کائنات میں کتنا مادہ ہے یعنی اس کی موجودہ ڈینسیٹی کیا ہے۔ اور اگر ڈینسیٹی ایک خاص مقدار سے کم ہے تو موجودہ رفتار کی وجہ سے کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی اور اگر ڈینسیٹی ایک مقدار سے زیادہ ہے تو یہ کائنات کا پھیلنا مستقبل میں رک جائے گا اور کائنات سکڑنا شروع کردے گی۔
ڈالپر اثر کے استعمال سے کہکشاؤں کے دور جانے کی رفتار یعنی کائنات کے پھیلنے کی رفتار کافی اچھی طرح (Accurately) معلوم ہے لیکن کہکشاؤں کی صحیح دوری معلوم کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہر 100 کروڑ سالوں میں کائنات تقریباً 5 فیصد سے 10 فی صد تک پھیل رہی ہے۔ لیکن کائنات میں کتنا مادہ ہے اس کے بارے میں ابھی بہت زیادہ غیر یقینی ہے اور یہ موجودہ تحقیقات کا موضوع ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شائد کائنات ہمیشہ پھیلتی جائے گی لیکن اس پر شرط نہ لگائیں، اگر سکڑے گی تو اس کو سکڑنے میں ہزاروں کروڑ سال لگے گیں اس سے پہلے ہمارا سورج گل ہوجائے گا اور اس زمین پر کسی بھی طرح کی زندگی ناممکن ہوگی۔
کائنات کے سبھی خاکہ جو فریمان کی دونوں شرائط کو مطمئن کرتے ہیں ان سبھی کی پیشن گوئی یہ ہے کہ اگر آئنسٹائن کی گریوٹیشن تھیوری صحیح ہے تو یہ ساری کائنات تقریباً 15 بلین سال پہلے ایک نقطہ سے عظیم دھماکہ سے شروع ہوئی اور وقت کی شروعات بھی جبھی ہوئی۔
’’وقت کب شروع ہوا‘‘ اس بات سے کچھ سائنسداں ناخوش تھے اور یہ کہ کائنات ایک عظیم دھماکہ سے شروع ہوئی اس چیز سے بچنے کی کئی کوشیشیں کی گئی۔
1848 میں برطانوی فلکیاتی سائنسداں فریڈ ہوائیل تھامس گولڈ اور ہرمن بانڈی نے ایک ایسا خاکہ پیش کیا جو Steady State Theory کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خاکہ میں یہ تو مانا گیا کہ کائنات اب تو پھیل رہی ہے لیکن اس خالی جگہ پر برابر نیا مادہ یعنی نئی کہکشائیں بنتی جارہی ہیں اور اس وجہ سے کائنات ہمیشہ سے چاروں طرف ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن بعد کی تجرباتی تحقیقات نے اس تھیوری کی پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور پھر زیادہ تر لوگوں نے اس تھیوری میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا۔
1963 میں دو مشہور روسی فلیکاتی سائنسدانوں نے کائنات کا ایک نیا خاکہ پیش کیا۔ لفشز (Lifshitz) اور کھلیٹنی کاؤ (Khalatnikov) کا یہ خیال تھا کہ ماضی میں یہ ساری کہکشائیں ایک دوسرے کے پاس سے ہوکر گزر گئیں اور کائنات دوبارہ پھیلنے لگی اور کائنات کا سارا مادہ کبھی بھی ایک نقطہ پر نہیں رہا۔ یعنی کائنات ہمیشہ سے ایسی ہی ہے پھیلتی اور پھر سکڑتی ہے۔ یعنی کائنات کو شروع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد (1970) ان کو اپنے خاکہ کی کمیوں کا احساس ہوا اور عظیم دھماکہ (Big Bang) کے خلاف اپنے اعتراضات کوواپس لے لیا۔
کیا واقعی عظیم دھماکہ ہوا اور وقت کی شروعات بھی جبھی ہوئی۔ ان سوالوں کا مناسب جواب بالکل ہی نئی جگہ برطانوی ریاضی داں راجر پیزور کی تحقیقات سے ہوا۔
پیزوز ایک بڑے ستارے کی زندگی کے آخری وقتوں کی تحقیقات کررہےتھے جب کہ اس میں گرم رکھنے کا ایندھن ختم ہوچکا ہو۔ انہوں نے یہ پایا کہ اگر اس ستارہ میں ایک حد سے زیادہ مادہ ہو تو گریوٹیشنل کشش کی وجہ سے یہ سارا مادہ سکڑ کر ایک نقطہ پر جمع ہوجائے گا۔ جس میں کشش اتنی ہوگی کہ اس سے روشنی بھی باہر نہیں جا پائے گی۔ اس طرح کے ستارے کو بلیک ہول کہتے ہیں۔ اس کا تفصیل سے آگے ذکر ہوگا۔ پروفیسر پنروز (Penrose) آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشہور فلکیاتی سائنداں ہیں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں Emperors new Mind اورShadows of Mind بہت مشہور اور مقبول ہوئی۔
اسی زمانہ میں کیمرج یونیورسٹی میں اسٹیفن یاکنگ (مشہور فلکیاتی سائنسداں) کو یہ خیال آیا کی اگر پیزوز کے مقولہ (Theorem) میں وقت کی دھارا کو الٹا کردیا جائے تو مادہ کا سکڑ کر بلیک بننا بدل کر مادہ کے پھیلنے کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ اسی سمجھ کو آگے بڑھاتے ہوئے پیزوز کے ساتھ مل کر ہاکنگ نے یہ ثابت کیا کائنات ایک دھماکہ سے ہی شروع ہوئی اگر آئنسٹائن کی گریوٹیشن تھیوری صحیح ہے جس کے لا تعداد ثبوت پچھلے 100 سالوں سے لگاتار ملتے آرہے ہیں۔
اگلی قسط میں بلیک ہول اور ابھی حال میں پہلی بار اس کی حاصل ہوئی تصویر کا ذکر ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔