گوگل کا ڈوڈل: جانیں اس کے پیچھے کس کا دماغ کار فرما ہوتا ہے!
ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لئے روز ایک نیا چیلنج ثابت ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس بات کا فیصلہ کافی حد تک جمہوری انداز سے کیا جاتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گوگل کے ویب صفحے پر کمپنی کے لوگو یا علامتی نشان کی جگہ ہر دن نظر آنے والے ایک نئے ڈیزائن کے پیچھے کس کا دماغ کار فرما ہوتا ہے؟ اس ڈیزائن کو ڈوڈل‘ بھی کہا جاتا ہے جسے ہر روز کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔ ہندوستان کی کئی اہم شخصیات پر بھی گوگل کی جانب سے ڈوڈلز بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی مشہور آرٹسٹ مقبول فدا حسین کا تو کبھی اداکارہ مینا کماری، گلو کارہ بیگم اختر، ستارہ دیوی، جگجیت سنگھ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نگر، اینی بیسنٹ، سی وجی رمن، اردو ادیب عبد القوی دسنوی جیسی شخصیات کے اعزاز میں ڈوڈلز بنائے ہیں۔
گوگل کے ویب صفحے پر جو چیز 1998 میں انگریزی میں لکھے گئے گوگل کے لفظ ’او‘ سے بنی ایک شکل ہوا کرتی تھی اب وہ کسی کھیل، مقبول واقعہ یا کسی شخصیت سے متعلق ایک فنی شے بن چکی ہے۔ اب تک تقریباً کئی ہزار ڈوڈلز بن چکے ہیں، انہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر روز گوگل کا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کی توجہ ان ڈوڈلز کی طرف جاتی ہے۔
لندن 2012 کے اولمپکس مقابلے جتنے روز جاری رہے ہر دن کسی ایک کھیل سے منسلک ایک نیا ڈوڈل گوگل کے ہوم پیچ پر نظر آتا رہا۔ ہر دن ایک ایسی نئی چیز کے ساتھ لوگوں کو لبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلاً چارلی چیپلن کے ڈوڈلز دیکھیں تو انہیں دیکھ کر آپ کو اس ٹیم کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ میں آئے گا جو خود کو بھی ”ڈوڈلرز“ کہلواتے ہیں اور اس کام کو سرانجام دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کر ہر روز ایک نیا ڈوڈل بناتے ہیں۔
ان ڈوڈلز کا بنیادی مقصد دفاتر میں روزمرہ کے کام میں مصروف لوگوں کی دلچسپی بڑھانا اور انہیں ایک مختلف قسم کا احساس دلانا ہے۔ اس ڈوڈل ٹیم کے تخلیقی لیڈر ریان جرمک کے مطابق ان کے ذہن پر یہ بات کبھی حاوی نہیں ہوتی کی ان کے کام کو لاکھوں لوگ دیکھ یا پڑھ رہے ہیں۔جرمک کہتے ہیں کہ:
”انسانی دماغ یہ سمجھنے میں ناکام رہتا ہے کہ لاکھوں لوگ کسی ایک چیز کے بارے میں آخر کس طرح سوچیں گے؟ لیکن میرے لئے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو کتنا ہنسا سکتا ہوں یا کیسے کوئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں فنکار یا ڈیزائنرز کے زمرے میں مت رکھیں۔ ہم بس یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فن اورٹیکنالوجی کو سب سے بہتر شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔“
جرمک کا کہنا ہے کہ وہ تفریح، فن، ٹیکنالوجی اور گرافک ڈیزائن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لئے روز ایک نیا چیلنج ثابت ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس بات کا فیصلہ کافی حد تک جمہوری انداز سے کیا جاتا ہے۔ اس تخلیقی عمل کو دیکھ کر یہ بھی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آیا ڈوڈل بنانا ایک فن ہے، یا اسے محض کاروباری نقطہ نظر سے ہی دیکھا جائے؟ فن کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن کا کوئی کاروباری پہلو نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ڈوڈل کے معاملے میں تجارتی فن کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ گرافک ڈیزائنر سی اسکاٹ کے مطابق ڈوڈلز ایک طرح سے جدید آرٹ کی ہی ایک شکل ہیں، لیکن مارکیٹنگ کمپنی سیون براڈز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر جیسمن منٹگمری اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق ”جب آپ کو تخلیقی صلاحیت کے لئے معاوضہ دیا جاتا ہے تب آپ کا کام فن کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسے میں آپ اپنے کاروباری کرتا دھرتا کی بات مانتے ہیں، نہ کہ تخلیقی گرو کی۔“
یہ فن ہے یا کاروبار، یا پھر دونوں کا مرکب، اس بات پر بھلے ہی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈوڈلز کافی دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں اور جب تک گوگل کا انٹرنیٹ بازار پر تسلط برقرار رہے گا اس وقت تک اس کے ہوم پیج پر نظر آنے والے ڈوڈلز انٹرنیٹ سرفنگ کا ایک اہم حصہ بنے رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Jun 2019, 9:10 PM