نسل انسانی کو صفحہ ہستی سے مٹنے کا خطرہ
اسٹیون ہاکنز کا مشورہ ہے کہ اس ممکنہ تباہی سے قبل نسل انسانی کو بچانے کے لئے دوسرے سیاروں پر بستی بسانی ضروری ہے لیکن کیا دوسرے سیاروں پر زندگی یہاں سے مختلف ہوگی کیونکہ اگر ہم زمین پر زمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں تو کیا ہم مریخ یا چاند پر ان کے لیے خطرہ نہیں بن جائیں گے؟ پہلے کون لوگ چاند یا مریخ پر جائیں گے، وہی نہ جنھوں نے لوٹ لوٹ کر کروڑوں ڈالر جمع کئے ہوئے ہیں، وہی ایک فیصد لوگ جو دنیا کی 90 فیصد دولت پر قابض ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اس زمین پر سارے فساد کی جڑ ہیں؟
دور حاضر میں اسٹیون ہاکنز دنیا کے سب سے مشہور سائنسداں ہیں۔ ان کی شہرت کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کم عمری سے لے کر اب تک علم طبیعات) فزکس(، علم کائنات ) کوسمولوجی(، علم اضافیات ) رلیٹیویٹی(، نظریہ قضاریہ ) کوانٹم تھیوری(، اور بلیک ہول پر ان کی تحقیقات نے کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری یہ کہ عام شہری کے لیے جب ان کی کتاب 'وقت کی ایک مختصر تاریخ' شائع ہوئی تو پوری دنیا چونک گئی۔ یہ مختصر سی کتاب دنیا میں کئی سال تک 'بیسٹ سیلر' رہی اور تقریباً ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن کا مقصد عوام کو آسان زبان میں سائنس کی بے حد مشکل گتھیاں سمجھانا تھا۔ حال ہی میں ان پر ایک بہترین فلم بھی بنی۔ اس طرح ان کی شہرت دن دونی رات چوگنی بڑھتی گئی۔
تیسری اور حیران کرنے والی وجہ ان کی بیماری ہے جسے Amyotrophic Lateral Sclerosis یا اے ایل ایس کہتے ہیں۔ بہت کم عمری میں انھیں یہ بیماری ہوئی جس کی وجہ سے پورے جسم میں دھیرے دھیرے فالج کا اثر پھیل گیا۔ طالب علمی کے آخری دنوں میں جب اس بیماری کا پتہ چلا تو ڈاکٹروں نے انھیں یہ بتایا تھا کہ وہ ایک دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔ یہ معجزہ سے کم نہیں کہ وہ آج بھی زندہ ہیں اور اس کے باوجود کے وہ چل نہیں سکتے، ہاتھ نہیں ہلا سکتے، بول نہیں سکتے، گردن نہیں ہلا سکتے، پلکیں بھی نہیں جھپکا سکتے، بے حد اہم بازیافت میں جی جان سے لگے ہیں۔ انہیں مجسم دماغ کہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں بھی وہ دنیا بھر میں گھوم گھوم کر کمپیوٹر کی مدد سے تقریر کرتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں وہاں انھیں سننے کے لیے خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔
ایسا ذہن اگر کوئی تنبیہ کرے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ کسی نکڑ کے ملا، پنڈت یا ٹی وی چینل کی پیشین گوئی نہیں جو آئے دن قیامت یا پَرلے سے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا کے ذہین ترین دماغ کی پیشین گوئی ہے کہ آئندہ 100-200 سالوں میں زمین پر ایسا سانحہ گزر سکتا ہے کہ نسل انسانی ہی ختم ہو جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل انسانی کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے، ہم جلد سے جلد چاند اور دوسرے سیاروں پر بستی بسانے کا انتظام کریں۔
ہاکنز نے تقریباً ایک سال پہلے کہا تھا کہ ہمارے پاس 1000 سال ہیں، مگر حالیہ بیان میں، جو انھوں نے بی بی سی کی ایک ڈاکومنٹری فلم کے لیے دیا ہے، اس عرصے کو گھٹا کر 100-200 سال کر دیا۔ ہاکنز نے کن وجوہات کی بنا پر خطرے کی گھنٹی کو اس شدت کے ساتھ بجایا، اس پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
سائنس اور مذہبی پیشین گوئی میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ سائنس میں پیشین گوئی پر ہمیشہ بحث کی گنجائش ہوتی ہے، چاہے وہ کتنے بھی بڑے عالم نے کی ہو۔ جب مذہبی پیشین گوئی کوئی بڑا عالم کرتا ہے تو اس میں بحث کی گنجائش نہ کے برابر ہوتی ہے۔ سائنس کی دنیا میں کوئی بھی بڑے سے بڑےسائنسداں کی کہی بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، اسے ذات یا مذہب سے باہر نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک بڑا فرق ہے سائنس اور مذہب میں۔
تقریباً ہر مذہب میں یہ تصور موجود ہے کہ 'خدا یا بھگوان نے اس کائنات اور انسان کو تشکیل دیا اور ایک دن وہ اسے ختم کر دے گا، وہ دن قیامت یا پَرلے کا دن ہوگا'۔ اس عقیدے پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہاکنز نے اپنے بیان میں ایک طرف تو خطرے سے آگاہ کیا ہے اور دوسری طرف وجوہات کی نشاندہی کی ہے اس لئے دونوں پر بحث شروع ہو گئی، جو ہونی ہی چاہیے۔ کیونکہ یہاں سوال عقیدے کا نہیں، سائنس کا ہے۔ خطرے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ بہت عرصہ گزر گیا کوئی سیارچہ زمین سے نہیں ٹکرایا ہے، اور اس کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں کہ کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرائے اور ایسی تباہی مچے کہ ہمارا وجود مٹ جائے۔ ایک اچھے سائنسداں کی طرح انھوں نے بڑے نپے تلے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ "حالانکہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ یہ کسی ایک سال میں ہو، مگر وقت کے ساتھ اس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے اور 1000 سے 10000 سال میں یہ ٹکراؤ لازمی ہے"۔ ان کی وجوہات کی فہرست میں آب و ہوا میں بدلاؤ، آبادی کا بے تحاشہ بڑھنا، انسان کے پیدا کردہ جراثیم اور مصنوعی شعور شامل ہیں۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے ہاکنز کا کہنا ہے کہ انسانوں کو فوراً چاند اور دوسرے سیاروں پر بستیاں بسا لینی چاہئیں۔ انھوں نے چاند اور مریخ کو انسان کا پہلا پڑاؤبھی بتایا۔
جو بحث شروع ہوئی اس میں کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے۔ مثال کے طور پر سائنس پر تبصرہ کرنے والی سارہ فیچ نے ایلن مسک کی کمپنی جو زمین اور سیاروں کے بیچ آمد و رفت کا سلسلہ جاری کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ خواب اچھا ہے مگر اس کا حقیقت بن جانا مشکل ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ "ذرا یہ بتائیے کہ مریخ پر آبادی بسانے کا خرچ کون برداشت کرے گا؟ امریکی حکومت وہاں آبادی بسانے کے لیے کیوں دولت خرچ کرے گی؟"
ایرک میک نے تو ہاکنز کے بیان پر اپنے مضمون کی شروعات ہی اس جملے سے کی "جہاں تک بلیک ہول اور کوانٹم میکانک کا سوال ہے، مجھے ہاکنگ کی رائے پر پورا بھروسہ ہے، پر جب مشہور عالم کائنات یہ کہتے ہیں کہ سانحہ ہونے والا ہے کہیں دور بستی بسا لو تو مجھے شک ہوتا ہے۔"
ہاکنز کے بیان پر رد عمل تو آنے ہی تھے، مگر ایک بات پر غور کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ کسی نے ہاکنز کی پیشین گوئی کہ "زمین ایک بڑے سانحے سے دو چار ہو سکتی ہے جو پوری نسل انسانی کو ختم کر دے" پر نہ تو نکتہ چینی کی، نہ سوال اٹھائے۔ ساری بحث ان کے نسل انسانی کو بچانے کے طریقہ کار پر ہی ہوئی۔
ہاکنز کے بیان کے بعد ہمیں بڑی ذمہ داری کے ساتھ کئی سوال پوچھنے چاہئیں۔ جن خطرات کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک کے علاوہ سارے خطرے انسان کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اگر ہم زمین پر زمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں تو کیا ہم مریخ یا چاند پر ان کے لیے خطرہ نہیں بن جائیں گے؟ پہلے کون لوگ چاند یا مریخ پر جائیں گے، وہی نہ جنھوں نے لوٹ لوٹ کر کروڑوں ڈالر جمع کئے ہوئے ہیں، وہی ایک فیصد لوگ جو دنیا کی 90 فیصد دولت پر قابض ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اس زمین پر سارے فساد کی جڑ ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کی ذہنیت کی وجہ سے سرمائے کی لوٹ ہے، جنگیں ہیں، بے روزگاری ہے، روبوٹ اور آرٹیفشیل انٹلیجنس پر انہی کا تو قبضہ ہے، یہی جنیٹکلی موڈیفائیڈ آرگنیزم بناتے ہیں، یہی نیوکلیائی تکنیک کا بھیانک استعمال کرتے ہیں، عوام اور کمزور ملکوں کو انہی کے اشارے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کیا یہ مریخ پر جائیں گے تو اپنی ذہنیت زمین پر چھوڑ جائیں گے؟
ہاکنز نے خطرے کا بگل بجا دیا ہے، اس زمین پر بسنے والے ہر انسان کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اس تخریب کاری ذہنیت اور سماج کے ڈھانچے کو، نسل انسانی کے مٹنے سے پہلے بدل پائیں گے یا نہیں؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Aug 2017, 8:58 AM