ایک خاتون سائنسداں نے کورونا وائرس کی دریافت 56 سال پہلے ہی کر لی تھی!
کورونا وائرس کی بنیاد کیسے پڑی؟ یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ کچھ سائنسداں کہتے ہیں کہ چمگادڑ سے انسانوں میں آیا، کچھ کہتے ہیں اسے تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا۔ لیکن سچ ان سب سے بہت الگ ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں کہرام مچا ہوا ہے۔ امریکہ جیسے سپر پاور ملک نے بھی اس وائرس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ کووڈ-19 سے دنیا میں اب تک 1.65 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ 24 لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس کے انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان سب دہشت ناک خبروں کے درمیان اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ آخر کورونا وائرس وجود میں کس طرح آیا۔ کچھ سائنسداں کہتے ہیں کہ یہ چمگادڑوں سے انسانوں میں پہنچا، جب کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی دریافت بہت پہلے ہی ہو گئی تھی؟ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ انسانوں میں سب سے پہلے کورونا وائرس کی دریافت کس نے کی تھی اور کیسے پتہ چلا تھا اس وائرس کا!
ہندی نیوز پورٹل 'آج تک' کے مطابق کورونا وائرس کی دریافت 56 سال پہلے ہی ہو گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق آج سے 56 سال پہلے 1964 میں ایک خاتون سائنسداں اپنے الیکٹرانک مائیکرواسکوپ میں دیکھ رہی تھی۔ تبھی انھیں ایک وائرس نظر آیا جو سائز میں گول تھا اور اس کے چاروں طرف کانٹے نکلے ہوئے تھے۔ جیسے سورج کا کورونا۔ اس کے بعد اس وائرس کا نام رکھا گیا کورونا وائرس۔ اس وائرس کی دریافت کرنے والی خاتون کا نام ہے ڈاکٹر جون المیڈا۔
کورونا وائرس کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر جون المیڈا کو ہی جاتا ہے۔ انھوں نے اس وائرس کی دریافت 34 سال کی عمر میں کی تھی۔ 1930 میں اسکاٹ لینڈ کے گلاسگو شہر کے شمال مشرق میں واقع ایک بستی میں رہنے والی بے حد عام فیملی میں جون کی پیدائش ہوئی۔ المیڈا کے والد بس ڈرائیور تھے۔ گھر کی معاشی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے جون المیڈا کو 16 سال کی عمر میں اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔
16 سال کی عمر میں ہی انھیں گلاسگو رائل انفرمری میں لیب ٹیکنیشین کی ملازمت مل گئی۔ دھیرے دھیرے کام میں من لگنے لگا۔ پھر اسی کو اپنا کیریر بنا لیا۔ کچھ مہینوں کے بعد زیادہ پیسے کمانے کے لیے وہ لندن آئی اور سینٹ بارتھولومیوز اسپتال میں بطور لیب ٹیکنیشین کام کرنے لگیں۔ سال 1954 میں انھوں نے وینزوئلا کے اداکار اینرک المیڈا سے شادی کر لی۔ اس کے بعد دونوں کناڈا چلے گئے۔ اس کے بعد ٹورنٹو شہر کے اونٹاریو کینسر انسٹی ٹیوٹ میں جون المیڈا کو لیب ٹیکنیشین سے اوپر کا عہدہ ملا۔ انھیں الیکٹران مائیکرواسکوپی ٹیکنیشین بنایا گیا۔ برطانیہ میں ان کے کام کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ 1964 میں لندن کے سینٹ تھامس میڈیکل اسکول نے انھیں ملازمت کا آفر دیا۔
لندن آنے کے بعد ڈاکٹر جون المیڈا نے ڈاکٹر ڈیوڈ ٹائریل کے ساتھ ریسرچ کرنا شروع کیا۔ ان دنوں یو کے وِلٹشائر علاقے کے سیلسبری علاقہ میں ڈاکٹر ٹائریل اور ان کی ٹیم عام سردی زکام پر ریسرچ کر رہی تھی۔ ڈاکٹر ٹائریل نے بی-814 نام کے فلو جیسے وائرس کے سیمپل سردی زکام سے متاثر لوگوں سے جمع کیے تھے۔ لیکن تجربہ گاہ میں اسے کلٹیویٹ کرنے میں کافی دقت آ رہی تھی۔ جس کے بعد پریشان ڈاکٹر ٹائریل نے یہ سیمپل جانچنے کے لیے جون المیڈا کے پاس بھیجےا۔ المیڈا نے وائرس کی الیکٹرانک مائیکرواسکوپ سے تصویر نکالی۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں دو بالکل ایک جیسے وائرس ملے ہیں۔ پہلا مرغے کے برونکائٹس میں اور دوسرا چوہے کے لیور میں۔ انھوں نے ایک ریسرچ پیپر بھی لکھا، لیکن وہ رجیکٹ ہو گیا۔ دیگر سائنسدانوں نے کہا کہ تصویریں بے حد دھندلی ہیں۔
لیکن ڈاکٹر المیڈا اور ڈاکٹر ٹائریل کو پتہ تھا کہ وہ ایک نسل کے وائرس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پھر اسی دوران ایک دن المیڈا نے کورونا وائرس کی دریافت کی۔ سورج کے کورونا کی طرح کنٹیلا اور گول۔ اس دن اس وائرس کا نام رکھا گیا کورونا وائرس۔ یہ بات تھی سال 1964 کی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ وائرس انفلوئنزا کی طرح نظر آتا تو ہے، لیکن یہ وہ نہیں بلکہ اس سے کچھ الگ ہے۔ ڈاکٹر جون المیڈا کا انتقال 2007 میں 77 سال کی عمر میں ہوا۔ لیکن اس سے پہلے وہ سینٹ تھامس میں بطور مشیر سائنسداں کام کرتی رہیں۔ انھوں نے ہی ایڈس جیسی خطرناک بیماری کرنے والے ایچ آئی وی وائرس کی پہلی ہائی کوالٹی امیج بنانے میں مدد کی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔