اے آئی کی وجہ سے پے ٹی ایم میں 1000 ملازمتیں ختم، لاکھوں ملازمتوں پر مصنوعی ذہانت کا خطرہ

دنیا بھر میں بہت سے ماہرین اقتصادیات اور ایجنسیوں نے حال ہی میں حکومتوں کو اے آئی سے روزگار کو لاحق خطرے کے بارے میں خبردار کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اسے منظم کریں

<div class="paragraphs"><p>مصنوعی ذہانت / Getty Images</p></div>

مصنوعی ذہانت / Getty Images

user

قومی آواز بیورو

اے آئی کے حوالہ سے ماہرین نے جن خطرات سے آگاہ کیا تھا وہ اب سامنے آنے لگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے ادائیگی بینک پے ٹی ایم چلانے والی کمپنی ون 97 کمیونی کیشن لمیٹڈ کے تقریباً 1000 ملازمین اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کی نذر ہو گئے ہیں۔ ہے۔ کمپنی نے اپنے متعدد ڈویژنوں میں اخراجات کم کرنے کے لیے 1000 ملازمین کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور یہ عمل اکتوبر 2023 سے ہی شروع ہوا تھا۔

پے ٹی ایم کا کہنا ہے کہ کمپنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے دہرائے جانے والے کاموں اور کرداروں کو ختم کر کے اپنے کاموں میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔ اے آئی سے چلنے والی آٹومیشن کے ذریعے کمپنی ملازمین کے اخراجات میں 10 سے 15 فیصد تک بچت کر سکے گی۔ اے آئی کی وجہ سے بظاہر 1000 لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سال 2023 میں دنیا کی کئی بڑی ایجنسیوں اور ماہرین اقتصادیات نے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حکومتوں کو خبردار کیا ہے۔


عالمی سروے میں شامل 36 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے وہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ مارچ 2023 میں گولڈمین سیکس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اے آئی کی وجہ سے 300 ملین کل وقتی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔ پی ڈبلیو سی نے اپنے سالانہ عالمی ورک فورس سروے میں کہا ہے کہ ایک تہائی لوگ خوفزدہ ہیں کہ اے آئی اگلے تین سالوں میں ان کی ملازمتیں چھین سکتا ہے۔

دنیا مصنوعی ذہانت کے چیلنجوں اور خطرات سے آگاہ اور چوکنا ہو رہی ہے۔ ایسے میں اے آئی کو ریگولیٹ کرنے کی مکمل تیاریاں جاری ہیں۔ یورپی یونین نے اس سمت میں پہلا قدم اٹھایا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک بھی اے آئی کو ریگولیٹ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ حال ہی میں، امریکی کانگریس میں بھی اے آئی کے اثرات پر بحث ہوئی ہے۔ امریکی کانگریس کے ارکان اے آئی کو ریگولیٹ کرنے کے حق میں ہیں۔ چین نے پہلے ہی اے آئی کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔