ہندوستان میں خواتین فکشن نگاروں کا دبدبہ قائم، تاجکستان میں خواتین رائٹرز پر ریسرچ ورک وقت کا تقاضا: مشتاق صدف
ہندوستان میں اردو کی خواتین فکشن نگاروں کاعصر حاضر میں دبدبہ قائم ہے۔ ان کی تخلیقات کی معتبریت پر کوئی سوال قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی شناخت بہت مستحکم ہے
تاجکستان: ہندوستان میں اردو کی خواتین فکشن نگاروں کاعصر حاضر میں دبدبہ قائم ہے۔ ان کی تخلیقات کی معتبریت پر کوئی سوال قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی شناخت بہت مستحکم ہے۔ وہ مرد لکھنے والوں سے کسی بھی درجہ کمتر نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہارویزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹرمشتاق صدف نے شعبہ ہندی -اردو، تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ کے زیر اہتمام اپنے خصوصی لکچربعنوان "ہندوستان میں اردو کی معاصر خواتین فکشن نگار"میں کیا۔انہوں نے کہا کہ معاصر منظرنامہ میں اردو کی خواتین فکشن نگاروں کی ادبی خدمات سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ ان کی معتبریت پر کوئی بھی سوال قائم کرنا ناانصافی ہوگی۔انہوں نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ فکشن کی روایت خواتین کی خدمات کے اعتراف کے بغیر ادھوری ہے۔ کسی بھی عہد میں انہیں منہا نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اردو فکشن میں عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، رشید جہاں، ممتازشیریں، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، حجاب امتیاز علی، خاتون اکرم،سرلادیوی وغیرہ کی ایک کہکشاں دیکھنے کو ملتی ہے۔اسی طرح ابتدائی خواتین فکشن لکھنے والیوں میں اکبری بیگم، نذرسجادحیدر، عباسی بیگم، صغری ہمایوں ، محمدی بیگم وغیرہ نے ایک نئی افسانوی دنیا آباد کی، اس سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔جبکہ ادھر جیلانی بانو، نجمہ محمود، صغری مہدی ،ذکیہ مشہدی، بالقیس ظفیرالحسن، عائشہ صدیقی صبیحہ انور، صاقہ نواب سحر، نگارعظیم، ثروت خان، غزال ضیغم، آشاپربھات، تسنیم کوثر، افشاں ملک، شہیرہ مسرور، شائستہ فاخری، ترنم ریاض،وغیرہ وغیرہ نےفکشن کی روایت کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان ناموں کی فہرست بہت لمبی ہے۔
ڈاکٹر مشتاق صدف نے مزید کہا کہ ہمارے کچھ ناقدین کی کئی اہم خواتین فکشن نگاروں کی تخلیقات کے تئیں بے توجہی اورعدم دلچسپی کے سبب اردو ادب کا نقصان ہوا ۔ لیکن وقت منصف ہوتا ہے اس نے ازالہ بھی کر دیا ہے۔ گزشتہ ستر برسوں میں فکشن کی دنیا میں خواتین نے اپنی جس حسیت کا اظہار کیا ہے، ایساپہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ پھربھی کئی سطحوں پر مردوں نے بہت سی جینوین ادیباؤں کو زبان وادب کی مسجد میں محراب بھی نہیں بننے دیا۔لیکن اب یہ روش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاجکستان میں ہندی اور اردو کی معتبر خواتین رائٹرز پر تحقیق وتنقید کا کام کیا جانا چاہیے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔
پروگرام کے آخر میں صدر شعبہ ہندی-اردو ڈاکٹر قربان حیدر نے خواتین فکشن نگاروں پر ڈاکٹر مشتاق صدف کے لکچر کو کافی سراہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر اساتذہ میں ڈاکٹر علی خان، محترمہ صباحت یوروا اور محترمہ شیریں ماہ کے ساتھ ساتھ اردو اور ہندی کی تمام طلبا وطالبات نے شرکت کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔