’یہ ملک نفرت سے نہیں چلے گا‘، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے مولانا محمود مدنی کا خطاب

جمعیۃ کی مرکزی مجلس منتظمہ کے اہم اجلاس میں اسلاموفوبیا کے خلاف علیحدہ قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا، یہ اجلاس ابھی جاری ہے اور کئی اہم تجاویز اس میں پیش ہونا ابھی باقی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا محمود مدنی</p></div>

مولانا محمود مدنی

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس منتظمہ کا اہم اجلاس اس کے صدر دفتر نئی دہلی میں آج صبح شروع ہوا، جس میں ملک بھر سے جمعیۃ علماء ہند کے تقریباً دو ہزار اراکین و مشاہیر نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کر رہے ہیں۔ اجلاس کی پہلی نشست میں ملک میں بڑھتی منافرتی مہم اور اسلاموفوبیا کے انسداد اور فلسطین میں اسرائیل کی ظالم حکومت کی طرف سے جاری نسل کشی وغیرہ پر تفصیل سے گفتگو ہوئی اور تجاویز منظور ہوئیں۔ اگلی نشستوں میں مدارس دینیہ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور مسلمان بچوں پر تعلیمی اداروں میں شرکیہ اعمال اور ہندو کلچر تھوپنے سمیت متعدد سیاسی و سماجی مسائل پر تجاویز منظور ہوں گی۔

’یہ ملک نفرت سے نہیں چلے گا‘، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے مولانا محمود مدنی کا خطاب

پہلی نشست میں اپنے صدارتی خطاب میں مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ملک نفرت سے نہیں بلکہ پیار سے چلے گا۔ انھوں نے ماب لنچنگ اور مسلم کمیونٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کی شناخت خراب ہو رہی ہے۔ مولانا مدنی نے نوجوانوں کو متوجہ کیا کہ وہ گمراہ کرنے والی طاقتوں سے ہوشیار رہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ آپ کے جذبات کو مفاد پرست اور منافع خور تنظیمیں ہائی جیک کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں تاکہ پوری قوم کے سروں پر ناامیدی اور مایوسی کا شامیانہ تان دیا جائے۔ اس لیے شارٹ ٹرم کی لالچ ترک کر دیں اور لانگ ٹرم منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تعلیم گاہوں، آرٹ اسپیس، کھیل کود کے میدان ہر جگہ اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے محنت کریں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ سرکاری اداروں کی بھرتیوں پر خاص توجہ دی جائے، نیز اس کے لیے ٹریننگ سینٹرس قاہم کئے جائیں۔ کیونکہ سسٹم کے باہر رہ کر سوتیلے سلوک سے نجات پانا بڑا مشکل کام ہے، جبکہ سسٹم کے اندر رہ کر کوشش زیادہ کارگر ہوگی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سبھی طبقات کے ساتھ گفتگو اور باہمی رابطہ سازی کو فروغ دیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ ہمارے خیال سے متفق ہوں یا نہ ہوں، تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔


اس موقع پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مجلس منتظمہ کا یہ اہم اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ پورا ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس ملک میں آزادی کے بعد ملت کے اوپر بہت مشکل حالات آئے، لیکن اس وقت مسئلہ ہمارے ایمان و عقیدہ سے وابستہ ہے۔ ہماری نسل کو ایمان اور اسلام سے محروم کر کے ارتداد کے راستے پر لے جانے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ مزید برآں کچھ صوبائی اور مرکزی حکومتیں تعلیم اور ثقافت کے نام پر امت مسلمہ کے بچوں کو ان کے مذہب سے ارتداد کے راستے پر جانے کے لیے نہ صرف کوششیں کر رہی ہیں بلکہ جبر کا راستہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے جو نہایت غلط اور قابل مذمت عمل ہے۔

’یہ ملک نفرت سے نہیں چلے گا‘، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے مولانا محمود مدنی کا خطاب

انھوں نے مزید کہا کہ ہم صرف اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حوالہ دے کر اکتفا نہیں کر سکتے۔ آج کے حالات میں یہ سوچیں کہ ہمارے اکابر اگر زندہ ہوتے تو کن جذبات کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوتے۔ آج ہمیں ان جذبات کے ساتھ نوجوانوں کی طاقت اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اپنی نسل کے ایمان کی حفاظت کرنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں جمعیۃ علماء ہند ایک نعمت ہے، مولانا محمود اسعد مدنی کی شخصیت کی ستائش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے اکابر نہیں رہے، اللہ تعالی نے ان کی شکل میں نعم البدل عطا فرمایا ہے، ہمیں اپنے جان و مال کی قربانی دے کر ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔


جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا محمد سلمان بجنوری نے کہا کہ فلسطین عالم انسانیت کا نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنے آپ کو درندوں کی صف میں شامل کر دیا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی مظلومیت پر اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کو جمعیۃ نے روز اول سے توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ تاریخ کے حوالے سے کہا کہ جب فلسطین مسلمانوں کے پاس تھا تو انھوں نے ایک قطرہ بھی خون نہیں بہایا، لیکن آج ان کے پاس ہے تو ہر طرف خون کی ندی بہہ رہی ہے۔

’یہ ملک نفرت سے نہیں چلے گا‘، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے مولانا محمود مدنی کا خطاب

نائب امیر الہند مفتی سید محمد سلمان منصور پوری نے کہا کہ بچوں کے ایمان کی حفاظت کیلئے مکاتب کا کردار سب سے اہم ہے۔ لہذا ہر جگہ مکتب کا قیام عمل میں لانا اور ان مکاتب میں اسلامی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی تعلیم دینا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومتوں کی طرف سے جبر کے ساتھ بچوں کو ایسے اعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو دین و ایمان اور عقیدۂ توحید کے خلاف ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے بچے عقیدہ توحید و رسالت پر پوری زندگی قائم رہیں۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء بنگال کے صدر مولانا صدیق اللہ چودھری، مولانا عبداللہ معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند، مولانا عاقل قاسمی صدر جمعیۃ علماء مغربی یوپی وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی اور مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری نے اجلاس کی نظامت کی۔ انھوں نے سکریٹری رپورٹ پیش کی جس میں جمعیۃ کے اہم خدمات کا تذکرہ کیا گیا۔ اپنے خطاب میں جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جمعیۃ کا نصب العین مسلمانوں کی تمام شعبہ حیات میں مذہبی رہنمائی ہے۔ ازیں قبل انھوں نے سابقہ کارروائی کی بھی خواندگی کی۔ مشہور شاعر احسان محسن نے جناب رسالت مآب میں عمدہ نعت پیش کی۔

ازیں قبل ایک اہم تجویز میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور اسے گاندھی اور نہرو کے ہندوستان کے لیے شرمناک قرار دیا گیا۔ تجویز میں کہا گیا کہ سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ چیزیں ملک کی برسراقتدار پارٹی کے اہم ذمہ داروں کی طرف سے فروغ دی جا رہی ہیں۔ معمولی سیاسی مفادات کے لیے نفرت کا زہر اس قدر گھول دیا گیا ہے کہ تعلیمی ادارے اور کالج کے طلبہ تک اس وبا کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال ممبئی ٹرین میں کالج کے طلبہ کے ایک گروپ کے ذریعہ ایک مسلم خاندان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور نیک نامی کے حوالے سے جمعیۃ علماء حکومت ہند کو متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ خود احتسابی سے کام لے اور نفرتی تقاریر اور ہیٹ کرائم کی روک تھام کے لیے ایک ٹھوس اور مؤثر لائحہ عمل وضع کرے، نیز لاء کمیشن کی سفارش کے مطابق تشدد پر اکسانے والوں کو خاص طور پر سزا دینے کے لیے ایک علاحدہ قانون وضع کیا جائے اور سبھی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی و اقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں پر روک لگائی جائے۔ ملک کے مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس منافرتی ماحول کو ختم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔


فلسطین میں جاری نسل کشی اور قتل عام پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مجلس منتظمہ نے تمام ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ (1) قابض حکام کو اسلحہ اور گولہ بارود کی برآمدات بند کریں جو ان کی فوج اور دہشت گرد اسرائیلی آبادکار، فلسطینیوں کو قتل کرنے اور ان کے گھروں، ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد، گرجا گھروں اور ان کی تمام املاک کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو ریاستیں اسرائیل کو اسلحہ اور سیاسی مدد فراہم کرتی ہیں، وہ اس نسل کشی میں برابر کی شریک ہیں۔ (2) بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دفتر استغاثہ فوری طور پر فلسطینیوں کے خلاف بین الاقوامی جرائم کے ذمہ دار اسرائیلی اہلکاروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے، اور تحقیقات کا دائرہ وسیع کرے اور فلسطین میں خون خرابہ اور قتل عام کے لیے اسرائیل پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے اور نقصانات کا ہرجانہ وصول کیا جائے۔

اجلاس میں سال گزشتہ کئی اہم شخصیات کے وصال پر گہری تعزیت کا اظہار بھی کیا گیا۔ ترانہ جمعیۃ قاری احمد عبداللہ رسول پوری نے پیش کیا۔ تحریک صدارت مفتی افتخار احمد قاسمی صدر جمعیۃ علماء کرناٹک نے پیش کرتے ہوئے مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کے نام کی تائید حاصل کی۔ جن شخصیات نے تجاویز پیش کیں اور کلیدی خطاب فرمایا ان میں مذکورہ شخصیات کے علاوہ مولانا عبد اللہ معروفی، استاذ دارالعلوم دیوبند اور مولانا عمر شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔