’پولیس انتظامیہ عدالت نہ بنے‘، بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ کو جمعیۃ علماء ہند نے بتایا قابل تحسین

سپریم کورٹ نے عبوری فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کے وزیروں کے اس بیان پر گرفت کی کہ ’’کچھ بھی ہو بلڈوزر چلتا رہے گا‘‘۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی اور سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ایک عبوری حکم جاری کیا ہے کہ ملک کے کسی کونے میں یکم اکتوبر تک بلڈوزر نہیں چلایا جائے گا۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں اور آبی ذخائر میں درپیش تجاوزات پر فی الحال لاگو نہیں ہوگا، لیکن بلڈوزر جسٹس کی ’مہیما منڈن‘ (تعریف و تشہیر) قبول نہیں کی جائے گی۔

جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے یہ ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی جرم یا واقعہ کے بعد کسی کے گھر کو گرانے کی اجازت فی الحال نہیں ہے۔ عدالت نے ان معاملات کی اگلی سماعت کے لیے یکم اکتوبر کی تاریخ مقرر کی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کے حکم پر اعتراض اٹھایا کہ قانونی حکام کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے۔ تاہم بنچ نے جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر انہدامات دو ہفتوں کے لیے روک دیے جائیں تو آسمان نہیں گرے گا۔


عدالت نے کہا کہ اس نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی ہے۔ اس نے کہا کہ ’’اگر ایک بھی غیر قانونی انہدام ہوتا ہے تو یہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم غیر مجاز تعمیرات کے معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے، لیکن انتظامیہ جج نہیں بن سکتی۔‘‘ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایم آر شمشاد اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فرخ رشید سمیت کئی اہم وکیل موجود تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے سوال کیا کہ 2024 میں اچانک جائیدادیں کیوں مسمار کی گئیں۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ وہ غیر مجاز تعمیرات کو مسمار کرنے کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ اگلی تاریخ تک عدالت کی اجازت کے بغیر انہدام پر پابندی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ایک ’’بیانیہ‘‘ بنایا جا رہا ہے کہ ایک خاص برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ باہر کی آوازیں عدالت کو متاثر نہیں کر رہی ہیں۔ ہم اس وقت، کس برادری کا معاملہ ہے، اس میں نہیں جائیں گے۔ اگر ایک بھی غیر قانونی انہدام ہوتا ہے تو یہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔


عدالت نے اس بات پر سخت غصہ کا اظہارکیا کہ پچھلے حکم کے بعد (جہاں اس نے ہدایات جاری کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا) مرکزی سرکار کے کچھ وزیروں کی طرف سے ’’بلڈوزر چلتے رہیں گے‘‘ جیسے بیانات دیے گئے۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ 2 ستمبر کے بعد ایسی دھمکیاں اور جواز پیش کیے گئے، کیا یہ ہمارے ملک میں ہونا چاہیے؟ جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ یاد رہے آخری تاریخ کو عدالت نے ملک بھر میں رہنما اصول وضع کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا تاکہ اس بات پر تشویش کا ازالہ کیا جا سکے کہ کئی ریاستوں کے حکام، ملزموں کے مکانات کو سزا کے طور پر مسمار کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے فریقین کو مسودہ تجاویز جمع کرانے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے اپنی تجاویز پیش کیں۔

پس منظر

سپریم کورٹ میں 2022 میں دائر درخواستوں کا تعلق دہلی کے جہانگیر پوری میں اپریل 2022 میں ہونے والی انہدامی مہم سے تھا، جسے بعد میں روک دیا گیا۔ عرضی گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ حکام سزا کے طور پر بلڈوزر کا استعمال نہیں کر سکتے۔ ستمبر 2023 میں سماعت کے دوران سینئر وکیل کپل دیو نے حکومتی رویے پر تشویش ظاہر کی تھی۔ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت گھر کے حق کا دفاع کیا اور مسمار شدہ گھروں کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا تھا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انہدامی کارروائیوں کے خلاف ہنگامی ریلیف کی عرضیاں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے حال میں داخل کی گئیں، اس کے بعد یہ سماعت ہو رہی ہے۔


جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے پیش کردہ گائیڈ لائن کے چند اہم نکات

(1) حکام یا بلدیاتی ادارے ایسے افسران کا تقرر کریں گے جو انہدام سے متعلق عدالتوں یا متعلقہ حکام کو جوابدہ ہوں گے۔ (2) یہ افسران ڈویژنل کمشنر یا مساوی افسر کو رپورٹ کریں گے۔ (3) انہدام کا فیصلہ کرنے سے پہلے افسر کو علاقے کا سروے کرنا ہوگا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کتنے مکانات بلدیاتی قوانین کے تحت انہدام کے قابل ہیں۔ (4) ان گھروں کی فہرست تیار کی جائے گی جنہیں مکمل یا جزوی طور پر مسمار کیا جانا ہے۔ (5) متاثرہ مکانات کے مالکان یا رہائشیوں کو انہدام سے کم از کم 60 دن پہلے تحریری نوٹس دیا جائے گا۔ (6) نوٹس میں انہدام کی وجوہات بیان کی جائیں گی اور یہ بذریعہ دستی، رجسٹرڈ پوسٹ اور میونسپل ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے گا۔ (7) نوٹس مقامی زبان میں بھی فراہم کیا جائے گا۔ (8) انہدام سے 10 دن قبل افسر کو ایک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا جس میں یہ تصدیق کی جائے گی کہ نوٹس موجودہ رہنما اصولوں کے مطابق فراہم کیا گیا ہے اور اسے ڈویژنل کمشنر کے دفتر میں جمع کروایا جائے گا۔ (9) متاثرہ افراد 15 دن کے اندر نوٹس کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں، اور متعلقہ اتھارٹی 15 دن کے اندر سماعت کے بعد فیصلہ کرے گی۔ (10) اپیل کے زیر التوا ہونے کی صورت میں، جب تک فیصلہ نہیں آتا، انہدام نہیں کیا جا سکتا۔ (11) اگر اپیل خارج ہو جائے تو مکینوں کو 10 دن کی مہلت دی جائے گی تاکہ وہ اپنی جگہ خالی کریں۔ (12) انہدام صرف ایک یا چند گھروں کو نشانہ بنا کر نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکام کو پورے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کرنی ہوگی اور تمام انہدامات کے لیے ایک شیڈول مقرر کرنا ہوگا۔ (13) کسی ایک گھر کو اس وقت تک مسمار نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ پورے علاقے کی غیر قانونی تعمیرات کا منصفانہ جائزہ نہ لے لیا جائے۔ (14) ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کو سزائیں دی جائیں گی اور متاثرہ افراد کو مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ (15) خلاف ورزیوں کو توہین عدالت سمجھا جائے گا جیسا کہ ڈی کے باسو بمقابلہ ریاست مغربی بنگال کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں بیان کیا گیا ہے۔

یہ رہنما اصول ریاستی حکام کی طرف سے انجام دی جانے والی انہدامی سرگرمیوں میں شفافیت، انصاف اور مناسب عمل کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں جو جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکیل ایم آر شمشاد نے تیار کیا ہے۔

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کا بیان

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ بلڈوزر کو انصاف کی علامت سمجھا جاتا ہے، جو عدالتی عمل اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لے کر قابل تحسین بات کہی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے بیانات پر فوری روک لگائی جائے تاکہ انصاف کی بالادستی برقرار رہے اور قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔