میڈیکل انشورنس سے ضرورت کے وقت استفادہ کی اجازت، فقہی اجتماع میں تجویز منطور

اہم اور تاریخی تجاویز کے ساتھ ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا سترہواں فقہی اجتماع مکمل، مولانا ارشد مدنی، مفتی ابوالقاسم نعمانی، مولانا محمود اسعد مدنی سمیت کئی اہم شخصیات کا خطاب

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام سترہواں سہ روزہ فقہی اجتماع، حج بھون بنگلور کرناٹک میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں جہاں ”شرکت محدودہ“، جی ایس ٹی میں سودی رقم کا استعمال“ اور”ہیلتھ انشوررنس“ پر طویل مناقشات کے بعد اہم شرعی فیصلے کیے گئے، وہیں ملک میں موجودہ اسلام مخالف ماحول پربھی تجویز منظور کی گئی۔

اس اجتماع میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما لکھنو، جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، مظاہر علوم سہارن پور اور جنوبی ہند کے معروف اداروں سمیت ملک بھر سے دو سو سے زائد ارباب افتاء نے شرکت کی اور اپنے اپنے مقالات تحریری طور پر پیش کیے۔ الگ الگ نشستوں کی صدارت امیر الہند صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی، مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، مولانا رحمت اللہ کشمیری رکن شوری دارالعلوم دیوبند، مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مفتی عتیق احمد بستوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء وغیرہ نے کی، جب کہ خطبہ افتتاحیہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور اس فقہی اجتماع کے روح رواں مولانا محمود اسعد مدنی نے پیش کیا۔ اجلاس میں نائب امیر الہند مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نے مباحث فقہیہ کے طور طریقوں پر روشنی ڈالی۔ جبکہ اجتماع کی نشستوں میں امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد خاں رشادی، مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی بنگلور، مولانا مقصود عمران بنگلور، مولانا محمود حسن کھیروا، مولانا ظہیر بنگلہ دیش، مولانا یاسر ندیم امریکہ مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔


اپنے خصوصی خطاب میں امیر الہند مولانا ارشد مدنی نے اپنے خصوصی خطاب میں امیر الہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ فتوی اصلاً اصحاب تقوی کا کام ہے، ہند میں اس کا سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے شروع ہوتے ہوئے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے سلسلے سے علمائے دیوبند تک پہنچا۔ فقہی مسائل میں اجتماعی غور وفکر کی روایت زمانہ قدیم میں بھی رہی ہے، انگریزوں کے دور میں اس سلسلہ میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ آزادی کے بعد سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ نے باقاعدہ ادارۃ المباحث الفقہیہ کے نام سے ایک مستقل شعبہ قائم کیا جس کا مقصد جدید مسائل کا شرعی حل تلاش قرار پایا۔ ان کے وصال کے بعد حضرت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے 1989 میں اس شعبہ کو دوبارہ متحرک اور فعال بنایا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ اس سلسلے کو جدید نسل کے علماء نے بخوبی اپنایا ہے۔

آخری نشست میں اپنے صدارتی خطاب میں مفتی ابوالقاسم نعمانی نے مسائل کی تحقیق کے سلسلے میں اعتدلال کو اختیار کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ان اجتماعات میں وہی جدید مسائل رکھے جاتے ہیں جن کا ماضی کے فقہاء کی کتابوں میں حل موجود نہیں ہے، جو ترقی پسند سوچ کا مظہر ہے۔ انھوں نے مفتیان کرام کو مشورہ دیا کہ نہ سہولت کی تلاش ہو اور نہ ہی اپنے فتووں میں شدت کی راہ اختیار کی جائے۔


صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام آئینی حقوق، جمہوریت اور قانون کا منبع ملک کا آئین ہے، اس لیے اس کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ ملک میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کو اس لیے نشانہ بناتی ہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں، ہمیں بہر صورت ان سے ہوشیار رہنا ہے اور دانش مندی سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔

دور حاضر میں میڈیکل ہیلتھ انشورنس کا معاملہ فقہی اور دینی تناظر میں کافی اہم رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں منظور کردہ فقہی تجویز میں کہا گیا کہ موجودہ ملکی و بین الاقوامی حالات کے تناظر میں کسی بھی ناقابل تحمل مصارف ِبیماری میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے اگر ضرورت مند لوگ میڈیکل انسورنش کی پالیسی سے استفادہ کریں تو اس کی گنجائش ہے۔ میڈیکل انسورنش کراتے وقت یہ بہتر ہے کہ کمپنی سے یہ معاہدہ کرلیا جائے کہ سالانہ پریمیم جمع کرنے کے عوض میں کمپنی سال میں کم ازکم ایک مرتبہ میڈیکل چیک اپ ضرور کرائے گی، تو ایسے میں ہیلتھ انشورنس کی پالیسی سے بھی استفادہ کی اجازت ہے۔


جی ایس ٹی میں سودی رقم صرف کرنے پر ایک اہم تجویز میں ان امور پر اتفاق ہوا کہ جس صورت میں جی ایس ٹی میں دی جانے والی رقم صارف یا تاجر کو واپس ملنے کی امید نہ ہو اور وہ رقم بالواسطہ یا بلا واسطہ سرکار کو پہنچتی ہو، تو اس میں سرکاری اداروں سے حاصل شدہ سود کی رقم دینے کی گنجائش ہے۔ نیز دکاندار صارف (خریدار) سے جی ایس ٹی کے نا م پر متعین رقم وصول کرلے تو اس رقم کو حکومت تک پہنچانا لازم ہے، اسے کسی تدبیر سے اپنے لیے روکنا درست نہیں۔

شرکت محدودہ سے متعلق تجویز میں یہ طے پایا کہ شرکت محدودہ اصولی طو رپر عنان یا مضاربت کے قریب تر ہے، لہذا اگر ایسی کمپنی کا بنیادی کاروبار سو د وقمار اور اشیائے محرمہ (حرام چیزوں) کی صنعت و تجارت پر مشتمل نہ ہو تو ایسی کمپنی قائم کرنا اور اس میں شریک ہونا، ملازمت کرنا اور اس سے منافع حاصل کرنا جائز ہے۔ اگر ایسی لمیٹیڈ کمپنی خسارے سے دوچار ہوجائے تو ذمہ داران پر منقولہ اور غیر منقولہ املاک اور اثاثوں کو فروخت کرکے قرض اور دیگر بقایا جات کی ادائیگی لازم ہے، اس کے بعد بھی اگر کمپنی کے ذمہ کچھ دین باقی رہ جائے اور خسارے کا سبب ذمہ داروں کی طرف سے لاپروائی اور تعدی ہو تو دین کی ادائیگی بہر حال ان کے ذمہ شرعاً ضروری ہو گی۔


ملک میں موجودہ اسلام مخالف ماحول پر تجویز میں کہا گیا کہ ملک کی موجودہ صورت حال دیکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملک گیر سطح پر اسلامی احکام اور مسلم شناخت کے خلاف منظم انداز سے کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کو موثر بنانے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈ یا کا بھر پور سہارا لیا جار ہا ہے۔ کچھ میڈیا چینل ایسے پروگرام پابندی سے پیش کر رہے ہیں جن میں ایسے افراد کو اسلام کے خلاف تبصرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جنہوں نے کسی وجہ سے اسلام ترک کر دیا ہے اور اب وہ باطل کا آلہ کار بن چکے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجتماع ایسی تمام کوششوں کی پر زور مذمت کرتا ہے۔ وہ میڈیا چینلوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ایسے مسائل میں اپنی دل چسپی دکھائیں گے جو ملک کی ترقی سے متعلق ہوں۔ اسلام مخالف کذب بیانی پرمشتمل پروگراموں سے فرقہ پرستی میں اضافہ ہوتا ہے جو ملک کی ترقی کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ اجتماع مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلائے جا رہے ان گستاخانہ پروگراموں سے متاثر نہ ہوں، علمائے دین سے دینی رہنمائی کے لیے رجوع کریں، باطل کے اس طریقہ واردات کو سمجھیں اور دل میں اس بات کو بٹھالیں کہ حق کی پہچان یہی ہے کہ اس کو چہار طرفہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود میڈیا یا سوشل میڈیا کے کسی چینل پلیٹ فارم پر اگر گستاخانہ مواد نشر ہوتا ہے، تو چند منتخب افراد ایسے چینلوں اور پلیٹ فارمز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں اور ایف آئی آر درج کرائیں۔

ان تجاویز کی منظوری کے بعد یہ اجلاس مولانا سید ارشد مدنی کی دعاء پر مکمل ہوا، شکریہ کی تجویز ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی نے پیش کی۔ اجتماع میں مذکورہ بالا شخصیات کے علاوہ مفتی نذیر احمد باندی پورہ کشمیر، مفتی شبیر احمد قاسمی شاہی مرادآباد، مولانا مجیب اللہ گونڈوی استاذ دارالعلوم دیوبند، مفتی زین الاسلام مفتی دارالعلوم دیوبند، مفتی سید معصوم ثاقب قاسمی، مفتی عبدالرزاق امروہوی، مفتی امانت علی وقف دارالعلوم ویوبند، مفتی ثناء الہدی قاسمی، مفتی اختر امام عادل بہار، مولانا مفتی زید مظاہری دارالعلوم ندوۃ العلماء، مولانا ظفر عالم ندوی دارالعلوم ندوۃ العلماء، مفتی صالح مظاہر علوم، مولانا بدراحمد مجیبی پٹنہ، مفتی زین العابدین کرناٹک، مفتی افتخار صدر جمعیۃ علماء کرناٹک، مفتی شمس الدین بجلی کرناٹک، مفتی عفان منصورپوری، مفتی اسعد الدین قاسمی ناظم امارت شرعیہ ہند وغیرہ بھی مناقشے اور تاثرات میں شریک ہوئے۔ نظامت کے فرائض مشترکہ طور سے مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری اور مفتی عبدالرزاق امروہوی نے انجام دئیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔