’بچوں کی آواز کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس پر توجہ دینے کی ضرورت‘ جامعہ ہمدرد میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد

جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر ایم افشار عالم نے کہا کہ ہمیں بچوں کی آواز، ان کے تقاضے کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تعلیم کو عام کر کے تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر پریس ریلیز</p></div>

تصویر پریس ریلیز

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی (پریس ریلیز): نصابی تعلیم اور عملی اقدام کے تفریق کو پاٹنے کے مقصد سے سینٹر فور میڈیا اینڈ ماس کمیو نیکیشن اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد اور ڈپارٹمنٹ آف سوشل سائنس، ساوتھ ایشین یونیورسٹی، دہلی کے اشتراک سے' چائلڈ ہڈ کلچرز ان کنٹمپوریری ساوتھ ایشیا' کے عنوان سے 14 او 15 دسمبر کو ایک دوروزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں ملک اور بیرون ممالک کے درجنوں مندوبین اور ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔

افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر ( ڈاکٹر ) ایم- افشار عالم نے جنوبی ایشیا کے ممالک میں بچوں پر پڑنے والے غیر مساوی سماجی اور اقتصادی کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے مسائل کا حل تعلیم کو عام کر کے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کی آواز , ان کے تقاضے کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر افشار عالم کے بصیرت افروز خطاب نے اس دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔


سینٹر فور میڈیا اینڈ ماس کمیو نیکیشن کی ڈائرکٹر اور کانفرنس کی محرک پروفیسر ریشما نسرین نے خطبہ استقبالیہ میں بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت کے نکات پر باریک بینی سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی تربیت اور ان کی تعلیم میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے، جسے انہیں پوری دیانت داری سے ادا کر نا چاہیے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کے ممالک میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے رائج نظریہ اور نئے تقاضے میں توازن قائم کرنے پر زور دیا۔

ساوتھ ایشین یونیورسٹی کے شبہ سماجیات کے چیئرپرسن پروفیسر دیو ناتھ پاٹھک نے کانفرنس کا تعارف کرایا اور اس کے مقصد پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے ہمارے معاشرے کے لاینفک جز ہیں اور اس تعلق سے ہم غافل نہیں ہو سکتے۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ ہے ہم جنوبی ایشیا میں بچوں کے فلاح و بہبود اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے بنائے گئے لائحہ عمل کا تجزیہ کریں اور سماج مئں بچپن اور بچوں کے تعلق سے نئ بیداری لائیں۔


کانفرنس کے کنوینر پروفیسر فرحت بصیر نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بچوں کے تحفظ کے لیے فرد اور ریاست کی ذمہ داریوں کو اجا گر کیا۔ پروفیسر بصیر کا کہنا تھا کہ ہمیں علاقائی حدود سے اوپر اٹھ کر بچوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کی مہمان خصوصی اور مندوبین بشمول چائلڈ رائٹ اینڈ یو( سی آر آئی) کئی چیئرپرسن مس پوجا مارواہا، بال رکشا بھارت کے سی ای او مسٹر سدرشن سوچی، سیو چلڈرن آف انڈیا کے سی ای او نے جنوبی ایشیا میں بچپن کی ثقافت اور بچوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے میں در پیش چیلنجز اور اس کے تدارک کے لیے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔


جامعہ ہمدرد کے شعبہ سینئر فور میڈیا اینڈ ماس کمیو نیکیشن اسٹڈیز اور ساوتھ ایشین یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے اشتراک سے منعقد ہونے والے اس بین الاقوامی کانفرنس کو کئی اہم سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں اور ادارے کا تعاون حاصل رہا۔ ان میں چائلڈ رائٹ اینڈ یو- دہلئ، بال رکشا بھارت، گرو گرام ، سیو چلڈرن ، سیمک ڈھاکہ، بنگلہ دیش جیسی غیر سرکاری تنظیم اور حکومت ہند کے ادارے آئی سی ایس ایس کا نام اہم ہے۔

کانفرنس کے اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر دیو ناتھ پاٹھک نے کی۔ جبکہ پی آر آئی اے کے سربراہ ڈاکٹر راجیش ٹنڈن نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے بچوں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے امتیازی سلوک کے شد باب پر زور دیا۔ بی آر اے سی یونیورسٹی، بنگلہ دیش سے آئے مہمان اسپیکر ڈاکٹر رتن کمار نے، کلمات تشکر ادا کیے۔ انہوں نے تمام مہمانوں، جامعہ ہمدرد کی مہمان نوازی اور تعاون، کانفرنس کے شرکا، اور طلبا کی رضاکارانہ خدمات کا شکریہ ادا کیا

اس دوروزہ کانفرنس میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے درجنوں اسکالرز، ماہرین تعلیم اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔ ملک کے مختلف یونیورسٹی سے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے اپنے مقالے پڑھے۔کانفرنس کے تمام نشستوں میں سامعین اور اسکالرز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔