’فرقہ پرستی کے خلاف اکثریتی سماج کا میدان میں آنا ضروری‘، جمعیۃ علماء ہند نے ایک متفقہ پلیٹ فارم بنانے کا کیا اعلان
تشار گاندھی نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی دعوت پر مختلف سماجی و تعلیمی شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ملک مخالف بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی: آج جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی دعوت پر دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی کے مدنی ہال میں ملک کی مختلف سماجی و تعلیمی شخصیات کا ایک اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں وطن عزیز میں پیدا کردہ معاشرتی تفرقہ اور بے چینی پر تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا۔ اس اجتماع میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار ارون گاندھی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس دوران فرقہ پرستی کے خلاف متحدہ پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلے میں مزید مشورے کے بعد جلد ایک کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا۔
مولانا محمود مدنی نے افتتاحی کلمات میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ بعدہ مہمان خصوصی تشار گاندھی نے اپنے کلیدی خطاب میں مسلمانوں کی موجود ہ صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ دائیں بازو کا گروہ شہریت ترمیمی قانون(CAA) ، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور وقف کے مسئلہ کو مسلم مسائل بنا کر پیش کیا کر رہا ہے۔ اس وجہ سے حکومت عام لوگوں کی توجہ ان پالیسیوں سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی ہے جو اقلیتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو دشمن کے طور پر پیش کرنے کی اس حکمت عملی نے دیگر اقلیتی مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے اور تعصب کو فروغ دیا ہے۔
تشار گاندھی نے مستقبل کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیا کہ اگر منظم طور پر مسلمانوں کوعلیحدہ کرنے کی سازش جاری رہی تو یہ بالآخر سنگین تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں جو اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیلنے کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ ان امتیازی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی اور معاشرتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تشار گاندھی نے اپنے خطاب کے اختتام پر اجتماعی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی مخصوص جماعتیں تشکیل دی جائیں جو قانونی اور سیاسی محاذوں پر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ملک کو مزید گہری تقسیم اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مولانا محمود مدنی نے کہا کہ آج برادرانِ وطن کو ہمارے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، ہمیں سیاسی اور سماجی طور پر مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد کو ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ غلط معلومات ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچائیں گی جو اسے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج آزادی سے سڑک پر چلنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ممبئی جا رہی ٹرین کے واقعے کو یاد کریں جہاں ایک بزرگ پر حملہ کیا گیا اور لگاتار پیٹا گیا، مگر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ بہرائچ کی صورتحال اور میڈیا کا کردار آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس مشکل ماحول میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو مایوسی سے بچائیں۔ اگر ہم بھی اسی جارحانہ لہجے اور طریقے کا سہارا لیں گے تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے نفرت کی آگ مزید بھڑکے گی۔ اس کے بجائے میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس نفرت کی بھٹی کو بجھانے کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس ملک کی اکثریت ہیں، اور یہ ملک آپ سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتا ہے۔
مشہور ماہر معاشیات پروفیسر ارون کمار نے بھی اس اجتماع سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ سماج کو متحد کرنے کے لیے جو کوششیں کی جانی چاہئیں، وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔ کچھ مخصوص گروہوں کے حق میں بنائی جانے والی پالیسیاں سماجی تقسیم کو بڑھا رہی ہیں، اور اکثر اکثریت کا استعمال وسیع تر ایجنڈے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اقتصادی عدم مساوات، بے روزگاری اور معاشی ماڈلز نے سماج میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ سماجی مفکر وجے پرتاپ سنگھ نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دروازے سب کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی فاصلے کم کیے جا سکیں۔ ہمیں آئین کے دائرے میں رہ کر موقع تلاش کرنا چاہیے۔
اس موقع پر مشہور مؤرخ پرفیسر سوربھ باجپئی نے متحدہ قومیت کے تناظر میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات اور اس کے نظریے کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو طرح کی جدوجہد ضروری ہے: ایک سیاسی اور دوسری سماجی۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس ڈائیلاگ سیریز کا آغاز کیا ہے، اس کو مضبوط اور منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی جدوجہد کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔ معروف صحافی آدتیہ مینن نے فرقہ واریت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف کام کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند جیسی جماعتیں ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کے اندر بھی ایسی مذہبی تنظیموں کا ہونا ضروری ہے جو غیر مسلم طبقات کی جانب سے ہونے والے پرتشدد اقدامات کے خلاف فوری طور پر نوٹس لیں اور اسے روکنے کی کوشش کریں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر جاوید عالم خان مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پسماندہ طبقات بشمول دلت، آدیواسی، قبائلی اور مسلمان جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں ان طبقات کے نمائندے اپنے تجربات شیئر کریں اور حل کی جانب آگے بڑھیں۔ زکوۃ فافاؤنڈیشن آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر محمود نے زور دے کر کہا کہ ہمیں مسائل کی شناخت کرنی ہوگی اور پھر ان کا جواب سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارم سے دینا ہوگا۔ انھوں نے مذاہب کی گلوسری تیار کرنے پر بھی زور دیا اور مذاہب کے مابین تعارفی پروگرام کی اہمیت ظاہر کی۔
اس موقع پر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم بھی منظور کیا گیا جن پر سبھی لوگوں نے دستخط کئے۔ اس میمورنڈم میں صدر جمہوریہ ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ہیڈ آف اسٹیٹ کی حیثیت سے اس معاملے میں مداخلت کریں اور حکومت کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کی ہدایت دیں۔ میمورینڈم میں لکھا گیا کہ ’’ہم درخواست کرتے ہیں کہ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا جائے اور تمام مذہبی جذبات کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ کسی بھی برادری کو ایسی توہین آمیز رویے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘ سبھی نے یہ عزم ظاہر کیا کہ ہم ہندستان کے مشترک اور متحد شہری بیک زبان یہ واضح کرتے ہیں کہ کبھی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی مقدس مذہبی شخصیت کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ان کی عزت کے دفاع میں مضبوطی سے کھڑے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سبھی گستاخانہ رویوں اور بیانات کو فوراً روکا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔