آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا
ہم ایک نمائندہ ادارے کے طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ کورٹ نے مسلم پرسنل لا کے تحفظ کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ پرسنل لا کو عدالتوں کی طرف سے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت (جس میں جسٹس کھیہر، جسٹس عبدالنذیر شامل ہیں، جسٹس کورین جوزف شامل ہیں) نے پرسنل لا کے بارے میں توثیق کی ہے کہ آرٹیکل 25 میں موجود مذہب پر عمل کرنے کے حق کا حصہ مانتے ہوئے اس کو بنیادی حق مانا۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑی کامیابی ہے کیوں کہ یہ فیصلہ ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے اور اس ملک کے شہریوں کے بنیادی حق یعنی آزدانہ طور پر اپنے مذہبی عقائد پر عمل در آمد کو یقینی بناتا ہے۔ یہ فیصلہ آئندہ اس بات کے لیے نظیر ہونا چاہیے کہ کورٹ کسی بھی طبقے، فرقے کے مذہبی اعمال و اعتقادات میں مداخلت نہ کرے۔ اس فیصلے نے ہندوستانی شہریوں کے بنیاد حق کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔
جہاں تک طلاقِ بدعت کا تعلق ہے، تو ہم عدالت کو پہلے سے ہی بتا چکے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق (اگرچہ مذہبی نصوص میں اس کی بنیاد موجود ہے) طلاق دینے کا بہتر طریقہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی کئی سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زمینی سطح پر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ہم خود اس تعلق سے بین سماجی اصلاحی پروگرام چلا کر اور بورڈ کی جانب سے ماڈل نکاح نامہ جاری کر کے طلاق کی اس شکل پر روک لگانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ 22 مئی 2017 کو ہم نے جو حلف نامہ کورٹ میں فائل کی تھی اس میں صراحت کی گئی تھی کہ کورٹ نے نکاح پڑھانے والے مولویوں اور قاضیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نکاح پڑھاتے وقت دونوں فریقوں کی منظوری سے یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق نہیں دے گا۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے مسلمانوں کا ماننا یہ ہے کہ طلاق بدعت یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کی بنیاد مذہبی عقیدے یا مذہبی عمل سے وابستہ ہے۔ بہر کیف ہم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان مسائل پر غور و خوض اور انھیں حل کرنے کی تدبیریں تلاش کریں گے۔
چوں کہ ججوں کی اکثریت (جسٹس نریمن، جسٹس للت، جسٹس کورین) نے طلاق بدعت کو غیر قانونی قرار دیا ہے جب کہ چیف جسٹس کھیہر اور جسٹس عبدالنذیر نے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے حوالے کرنے کی بات کی ہے، جو کہ طلاق بدعت کے غیر منطقی ہونے کے سلسلے میں اقلیت (ججوں کی اقلیت) کا نقطہ نظر ہے۔ لہٰذا حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا گلط استعمال کر کے مسلمانوں کے پرسنل لاء کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔