صدیوں پرانی تہذیب مٹانے کی سازش!

کانگریس پارٹی میں حالیہ دنوں میں آئی معجزاتی تبدیلیوں نے حکمراں بی جے پی کے لئے زمین کو مزید تنگ کردیا ہے۔ اب حکمراں طبقے کی ترقی کی باتیں عوام کے لئے مضحکہ خیز بن گئی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

آزادی کے بعد ہمارے قومی رہنماوں نے ملک کو انتشار اور افتراق سے نجات دلانے کے لئے ’کثرت میں وحدت‘ کے نظریئے کو عام کیا تھا۔ لیکن آج ہندوستانی سماج جس شکست و ریخت کے مرحلوں سے گزر رہا ہے اس سے ہر صاحب بصیرت بخوبی واقف ہے۔ یہ ملک ہزاروں سال سے کئی تہذیبوں، کئی مذاہب اور کئی زبانوں کا گہوارا رہا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک تکثیری سماج کی داغ بیل ڈالی گئی تھی لیکن اب ملک کی اس نمایاں خصوصیت کو ختم کرنے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ صدیوں قدیم گنگا-جمنی تہذیب کو ختم کر کے ایک خاص تہذیب و تمدن کو ہزار طاقت سے ہی سہی ملک کے عوام پر مسلط کرنے کی ساری تیاریاں کرلی گئیں ہیں۔ تکثیری معاشرے کے خواب کی تعبیر ہندوستانیوں کی نظروں سے دور ہی دور ہوتی جارہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

سال 2014 کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد جس پارٹی کوملک پرراج کرنے کا موقع ملا، اس کے سرپرست اور حواری سینہ ٹھونک کراکثر یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ 800 سال بعد ملک میں ہندو راج قائم ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد سے جو پارٹیاں برسر اقتدار آتی رہیں کیا ان کا تعلق کسی بیرونی ملک سے تھا یا انہوں نے ملک کے دستور اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی کی حکومت چلائی؟۔ بات دراصل یہ ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے ذات پات اور مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تقریباً پانچ سال بعد آج ایک بارپھرجب ملک 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی دہلیزپر کھڑا ہے تب ہندوتوا نظریہ کی گونج پھر زور و شور کے ساتھ سنائی دینے لگی ہے۔ ترقی اور سب کا ساتھ سب کا وکاس یا سوچھ بھارت جیسے چھلے دارنعرے پھیکے پڑ گئے ہیں۔

ہمارے ملک کے وزیراعظم 2014ء کے انتخابات کے دوران گجرات ماڈل کی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ ملک میں بھی گجرات ماڈل پر عمل کیا جائے گا، لیکن اب بی جے پی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کے پیروں تلے زمین کھسکتی جارہی ہے۔ نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے جہاں اقلیت، غریب، دلت اور پسماندہ طبقات دہشت کی زندگی جی رہے تھے وہی اب کھل کراپنی ناراضگی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو بے ڈھنگے طریقے سے نافذ کیے جانے سے ملک کا تاجر طبقہ پہلے ہی برسر اقتدار پارٹی سے ناراض تھا۔ ان سب کے درمیان اب ملک کی سب سے قدیمی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی میں حالیہ دنوں میں آئی معجزاتی تبدیلیوں نے بی جے پی کے لئے زمین کو مزید تنگ کردیا ہے۔ اب حکمراں طبقے کی ترقی کی باتیں عوام کے لئے مضحکہ خیز بن گئی ہیں۔

عوام کا کوئی طبقہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نظرنہیں آتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ پسماندہ طبقات اور دلت بھی بی جے پی سے ناراض ہیں۔ بابری مسجد کے مسئلہ کو بھی اس لئے پھر سے تازہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے تقریباً سبھی لیڈروں کوشاید یہی ایک ذمہ داری دی گئی کہ وہ روزانہ اس معاملے میں لب کشائی کرتے رہیں اوراس دوران جتناجھوٹ بول سکیں، ان کے لئے چھوٹ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مٹھی بھر انتہا پسندوں کوخوش کرنے کے لئے ہندوتوا کے گھوڑے پر سوار بھگوا لیڈرعلی الاعلان ملک کی عدلیہ اورمقننہ کوچیلنج کر رہے ہیں۔

ووٹوں کی سیاست ایسی ہوتی ہے کہ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں۔ چوراہوں پر فسطائی طاقتوں کو چیلنج کرنے والے بھی اقتدار کی راہ داریوں میں اپنے معاملے طے کرلیتے ہیں۔ بی جے پی اس فن کا کافی تجربہ رکھتی ہے لیکن جمہوریت میں عوام کے مزاج کو سمجھنا مشکل ہے۔ کب عوام اپنی رائے بدل دے یہ کہا نہیں جاسکتا۔ مسئلہ کسی ریاست میں کسی پارٹی کے برسر اقتدار آنے یا نہ آنے کا نہیں ہے، بات یہ ہے کہ محض حصول اقتدار کے لئے ملک کو کتنا کھوکھلا کردیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال یقیناً خطرناک بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ جب کوئی سیاسی پارٹی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو مختلف عصبیتوں میں مبتلا کر کے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتی ہے تو یہ ملک کی ترقی کی علامت نہیں ہے۔ پارٹی یا ذاتی مفادات کی خاطر ملک اور قوم کے عظیم تر مفادات کو داو پر لگا دینا کوئی ملک کی خدمت نہیں ہے۔

ملک کی روایتی رواداری آج ختم ہوتی جارہی ہے، تنقید کو برداشت نہیں کیا جارہا ہے، صحافت کے اصول کیا ہوں؟ اس کا درس حکومت کے ایوانوں سے دیا جا رہا ہے۔ ملک کی انتخابی سیاست کو اتنا آلودہ کردیا گیا ہے کہ مسلمان، مسلمان کے بارے میں اور ہندو، ہندو کو ووٹ دینا چاہتا ہے، جبکہ دونوں طرف خدمت کا جذبہ مفقود ہے۔ تاریخی مقامات کو بیرونی حملہ آوروں کی نشانیاں قرار دے کر اسے منہدم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا اب یہی مسائل رہ گئے ہیں جس پر عوام کی توجہ کو مرکوز کر کے انہیں حقیقی مسائل پر غور و فکر کرنے کا بھی موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ اس سے عوام کے درمیان بھی انتشار اور ایک دوسرے سے نفرت وعناد کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ دور غلامی میں انگریزوں نے ہندوستانی سماج کی اس انداز میں تقسیم نہیں کی تھی جیسی بندر بانٹ ہندوتوا پارٹی آج کر رہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے قائدین بھی ان کی حمایت پر اتر آتے ہیں۔

بہار اسمبلی کا الیکشن سیکولرازم اور ہندوتوا کے نعرے پر لڑا گیا۔ ریاست میں سیکولر پارٹیوں نے تھالی میں سجا کر اقتدار کو نتیش کمار کوپیش کردیا لیکن چند ہی مہینوں بعد انہوں نے اپنا موقف بدل دیا اور آج وہ بی جے پی کے سب سے بڑے مداح بن کر سامنے آرہے ہیں۔ اس طرح اور کئی لیڈروں کے نام لئے جاسکتے ہیں جن کی پہچان سیکولر لیڈر کی تھی لیکن آج وہ سیکولرازم کا راستہ چھوڑ چکے ہیں۔ اول بات یہ ہے کہ مفادات جب آڑے آجاتے ہیں تو اصول اور نظریات کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے۔

اب ملکی سیاست میں یہ سب باتیں افسانوی لگتی ہیں لیکن افراط و تفریط کے اس ماحول میں حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک با معنی اور پائیدار تکثیری سماج کی تشکیل کے لئے منصوبہ بند، مخلصانہ اور دیانتدارانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سیاستداں اس ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں، یہ الگ موضوع ہے، ملک کے دانشوروں، سماجی جہد کاروں اور باخبر شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ ہماری قومی زندگی میں تشدد، فرقہ پرستی، علاقہ واریت، عدم برداشت اور تنگ نظری کا جو عنصر غالب آتا جارہا ہے اس کا قلع قمع کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ملک کی ایک بڑی اقلیت کے حوصلوں کو پست کرنے اور اس کو حاشیہ پر لانے کی جو مذموم کوششیں جاری ہیں اس سے ملک کی سالمیت اور جمہوریت کو ہی نقصان ہوگا۔ ضرورت ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ ارباب اقتدار مسائل کا حل تلاش کریں۔ اس کے ذریعہ ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور ہندوستان حقیقی گلدستہ اس وقت تک رہے گا جب تک عوام کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف اور مساوات ہوتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔