جملے نہیں، دل بدلیے:ظفر آغا

نریندر مودی : تصویر گیتی
نریندر مودی : تصویر گیتی
user

ظفر آغا

وزیر اعظم نریندر مودی کی یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے دی جانے والی تقریر کی دو باتوں کی آج کے اخبارات میں خوب دھوم ہے۔ اولاً، وزیر اعظم نے کشمیر کے تعلق سے جو بات کہی کہ ’’نہ گالی سے، نہ گولی سے، مسئلہ حل ہوگا گلے لگانے سے‘‘، وہ نہ صرف زیر بحث رہی بلکہ اس کی ہرسو دھوم بھی رہی۔ کوئی بھی مسئلہ کبھی بھی گولی یا گالی سے نہ تو حل ہوا ہے اور نہ حل ہو سکتا ہے۔ کسی بھی جمہوری نظام میں مسائل حل کرنے کا واحد طریقہ محض گفتگو ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مسئلہ کشمیر کا حل بھی گفتگو یا بقول مودی جی ’گلے لگانے‘ سے ہی ہو سکتا ہے۔

کشمیری کوئی پاکستانی تو ہیں نہیں۔ وہ ویسے ہی ہندوستانی ہیں جیسے گجراتی یا تامل ہندوستانی ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے بٹوارے کے وقت ہندوستان میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن ان کی اس شمولیت کے لیے انھوں نے کچھ شرائط رکھی تھیں جن کو اس وقت حکومت ہند نے نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ اس کو آئین میں خصوصی رعایت کے طور پر شامل بھی کیا گیا تھا۔ کشمیریوں کی جو شرائط تھیں اس کا لب لباب یہ تھا کہ کشمیر کی آٹونومی کو تسلیم کیا جائے گا اور وادیٔ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے کا حق نہیں ہوگا۔ پہلی شرط آئین میں دفعہ 370 اور دوسری شرط آئین میں دفعہ 35(اے) کے تحت منظور کی گئی تھیں۔

کشمیر میں دہشت گردی کی بنیاد یہی ہے کہ کشمیریوں کو یہ شکایت ہے کہ ہندوستانی حکومتیں نیک نیتی سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 (اے) کو لاگو نہیں کر رہی ہیں۔ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیریوں کی اس شکایت میں کافی صداقت ہے۔ اور نرسمہا راؤ حکومت کے وقت سے لے کر واجپئی اور منموہن حکومت تک مختلف حکومتوں نے کشمیریوں کی اس شکایت کو دور کرنے کے لیے مختلف سطح پر گفتگو کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔

لیکن مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سنگھ اور بی جے پی نے سارے ملک میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 (اے) کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا۔ کشمیر کے تعلق سے سنگھ کا یہ پرانا ایجنڈا رہاہےکہ ان دفعات کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ بی جے پی اور محبوبہ کی مخلوط حکومت بننے کے بعد کشمیریوں میں ان دفعات کے تعلق سے بہت بے چینی پیدا ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وادی میں دہشت گردی بڑھی جس کا پورا فائدہ پاکستان نے اٹھایا۔ ابھی فی الحال سپریم کورٹ میں دفعہ 35 (اے) کا معاملہ زیر بحث ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس دفعہ کو رد کر دیا تو کشمیر میں دہشت گردی کا سیلاب پھر بے حد تیز ہو جائے گا جس کا فائدہ ہندوستان نہیں پاکستان کو ہوگا۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم کی یہ پیش کش کہ ’گالی، گولی سے نہیں بلکہ گلے لگا کر‘ یعنی مسئلہ کشمیر کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش ہوگی، یقیناً قابل ستائش ہے۔ اس کا نہ صرف خیر مقدم ہونا چاہیے بلکہ جلد از جلد اس سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ شروع کر اور مختلف سیاسی اشاروں کے ذریعہ کشمیریوں کو یہ باور کروانا چاہیے کہ حکومت دفعہ 370 اور دفعہ 35 (اے) میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی۔ اگر عام کشمیریوں تک یہ پیغام چلا جاتا ہے تو نہ صرف وادی کشمیر میں دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان کا منصوبہ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے ملک میں فرقہ پرستی کے جنون کو ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے 15 اگست کو اپنی تقریر میں اس سلسلے میں فرمایا ’’اکثر کچھ لوگ عقائد کی بنا پر ایسے قدم اٹھاتے ہیں جن سے ملک کا سماجی امن و امان اثرانداز ہوتا ہے۔ ملک امن و امان اور آپسی اتحاد سے چلتا ہے۔ ذاتی واد اور فرقہ پرستی کے زہر سے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ بدھ اور گاندھی کا ملک ہے، اس میں سب کو ساتھ لے کر اس ملک کو آگے لے چلنا ہے۔ یہ ہماری تہذیب اور کلچر کا حصہ ہے۔ ہم کو اسی بات کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ اس لیے عقیدے کے نام پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔‘‘

یقیناً، یہ وزیر اعظم کی جانب سے قابل ستائش تنبیہ ہے۔ ایک سیکولر ملک میں نہ تو اندھے عقیدے کی کوئی جگہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی عقیدے کے نام پر ایک فرقہ کسی دوسرے فرقے پر کسی قسم کا تشدد کر سکتا ہے۔ لیکن موب لنچنگ کی آڑ میں یہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی یوم آزادی کے موقع پر دی جانے والی تقریر میں موب لنچنگ کا نام لیے بغیر اس قسم کے تشدد کی نہ صرف مذمت کر رہے تھے بلکہ اس کو روکنے کا وعدہ بھی کر رہے تھے۔

وزیر اعظم کی دو باتیں یقیناً تشفی بخش ہیں۔ لیکن اگر یہ باتیں محض تقریر کے لیے تھیں یا بقول بی جے پی صدر محض ایک ’جملہ‘ تھیں تو پھر یہ ساری باتیں بے سود ہو جائیں گی۔

ملک اور بالخصوص اقلیتوں کو اب محض جملہ بازی نہیں بلکہ مثبت عمل چاہیے۔ اگر پھر کہیں موب لنچنگ جیسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پھر یہی پیغام جائے گا کہ وزیر اعظم کا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ محض ایک چناوی نعرہ تھا جس کا مقصد ووٹ بٹورنا تھا تاکہ اقتدار حاصل ہو سکے اور پھر ملک میں ہندوتوا ایجنڈا لاگو کیا جا سکے۔

ملک کی 70ویں یوم آزادی کے موقع پرصرف وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی نہیں بلکہ پورے سنگھ پریوار کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر ہندوتوا ایجنڈا لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے کشمیر میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 (اے) تو اثرانداز ہوگی ہی ساتھ میں موب لنچنگ جیسی اقلیت مخالف حرکتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ اس لیے اب جملہ بازی نہیں بلکہ اب بی جے پی حکومت کے لیے خود اپنے نظریات کے احتساب کا وقت ہے ۔ یوم آزادی سے بڑھ کر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جب اس کام کی شروعات ہو۔

کیا وزیر اعظم نریندر مودی سنگھ اور بی جے پی کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ ہندوتوا نظریہ ملک کے حق میں نہیں ہے؟ اگر نہیں تو پھر مودی جی کے 15 اگست کے تمام وعدے محض ’جملہ‘ ہو کر رہ جائیں گے اور نہ ہی کشمیر میں گولی رکے گی اور نہ باقی ہندوستان میں موب لنچنگ ختم ہوگی۔ کیونکہ یہ نظریاتی معاملات ہیں جو محض ایک تقریر سے نہیں بلکہ دل بدلنے سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔