وسیم رضوی کو ہمایوں کےمقبرے پر غصہ کیوں آتا ہے!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

ان دنوں شیعہ قائدین کی باڑھ آئی ہوئی ہے، اور قائد بھی کیسے کیسے! ایسے کہ جن کا نام اوروں کو تو جانے دیجیے خود شیعہ فرقہ کے افرادوں نے بھی پہلے کبھی نہیں سنا۔ اس کی مثال وسیم رضوی صاحب ہیں۔ موصوف کا تعلق اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ سے ہے۔ حضرت نے ابھی حال میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر یہ رائے دی ہے کہ حکومت ہند دہلی میں واقع ہمایوں مقبرے کو گرا کر اس کی کئی سو ایکڑ کی زمین مسلمانوں کو قبرستان کے لیے دے دے۔

ذرا وسیم رضوی صاحب سے پوچھیے کہ آپ ہوتے کون ہیں ایک تاریخی قومی یادگار کو گروانے کی رائے دینے والے! پھر آپ کی حیثیت کیا ہے کہ آپ اس قسم کی بے ہودہ باتیں کریں۔ آپ ایک ادنیٰ سے وقف بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ کل تک زیادہ تر شیعوں نے بھی آپ کا نام نہیں سنا تھا۔ میں خود ایک شیعہ خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، صحافی ہوں لیکن آپ اس قدر ’بلند و بالا شخصیت‘ ہیں کہ نہ تو میں نے آج تک آپ کی شکل دیکھی اور نہ ہی آپ سے واقف ہوں۔ پھر بھی مغل بادشاہ ہمایوں جیسی شاندار شخصیت کی پہلی بیوی اور شہنشاہ اکبر کی والدہ حمیدہ بانو بیگم کے بنوائے ہمایوں مقبرے کو گروانے کی رائے آپ نے دے ڈالی۔

بھلا وسیم رضوی جیسے لوگوں کی کیا حیثیت کہ وہ مغل بادشاہوں کے بارے میں زبان کھولیں! نہ تو وہ تاریخ داں ہیں اور نہ ہی ان کا مغلوں سے کوئی تعلق ہے۔ پھر بھی ایسے حضرات منھ کھولنے سے باز نہیں آتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وسیم رضوی کا بیان ان کا اپنا بیان نہیں ہے۔ یو پی شیعہ بورڈ کی بنا پر ان کو بی جے پی کی خوشنودی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ایسے افراد کو اپنی کرسی برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر وہ حکم بجا لانا پڑتا ہے جو ان کو اوپر سے ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وسیم رضوی نے جو بیان دیا ہے اس کا حکم ’اوپر‘ سے ہی آیا ہوگا!

لیکن سوال یہ ہے کہ وسیم رضوی کو اس وقت ’ہمایوں کا مقبرہ‘ کیوں یاد آیا! جیسا کہ عرض کیا گیا یہ بات وسیم رضوی کے ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کی ایما پر دیا گیا بیان ہے۔ تو پھر ان دنوں بی جے پی کو کبھی شاہجہاں، تو کبھی ہمایوں اور کبھی اکبر بادشاہ اس قدر کیوں پریشان کر رہے ہیں! کیا سبب ہے کہ کبھی تاج محل تو کبھی ہمایوں کے مقبرے کو مسمار کرنے کی مانگ ہو رہی ہے۔

بات یہ ہے کہ سیاستداں جب کوئی بیان دیتا ہے تو وہ بے مقصد نہیں ہوتا۔ اس لیے بی جے پی اور بی جے پی کے خادموں کے ،مغلوں کے خلاف جو بیانات آ رہے ہیں وہ بے معنی بیانات نہیں ہیں۔ دراصل کبھی تاج محل اور کبھی ہمایوں مقبرے کو مسمار کرنے کی باتیں کر کے مسلمانوں کو اُکسایا جا رہا ہے۔ اس کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ تم اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہو، تمہاری تو کیا تمہارے بادشاہوں اور ان کے بنوائے ہوئے تاج محل اور ہمایوں مقبرے جیسی شاندار عمارتوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں بابری مسجد کی طرح تاج محل جیسی عمارت کو بھی گرا سکتے ہیں۔

لیکن بی جے پی کو اس وقت مغلوں کی کیوں یاد آ رہی ہے! آخر بی جے پی پر ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ذلیل کرے۔ یاد رکھیے، جب جب بی جے پی کو ووٹ چاہیے ہوتے ہیں، تب تب اس کو مسلمان یاد آتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ مسلمان کوئی ایسی حرکت کریں کہ اس سے ہندو رد عمل پیدا ہو۔ کیونکہ جب تک مسلمان سڑکوں پر نہ نکلیں گے تب تک ہندو کو نہ تو غصہ آئے گا اور نہ ہی اس کا کوئی رد عمل ہوگا۔ مثلاً، اگر ایک بابری مسجد ایکشن کمیٹی جیسی تنظیم نہ ہوتی اور وہ بابری مسجد کی ’دفاع‘ میں اتر پردیش میں سنہ 1990 کی دہائی میں درجنوں ریلیاں نہیں کرتی، تو ہندوؤں کو ایودھیا میں کسی رام مندر تعمیر میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ آخر سنہ 1960 کی دہائی سے بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ عدالت میں چل رہا تھا۔ لیکن عام ہندوؤں کو رام مندر کی فکر پریشان نہیں کر رہی تھی۔ جب بابری مسجد کے نام پر ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگے ،تو پھر جواباً ’جے سیا رام‘ کے بھی نعرے لگے اور پھر ایسے لگے کہ بابری مسجد مسمار ہوئی ۔ بابری مسجد کی دفاع کرنے والی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا نام بھی سنائی نہیں پڑا۔ اسی طرح گجرات فسادات کے لیے ایک گودھرا جیسے واقعہ کا ہونا لازمی ہے۔

لب و لباب یہ کہ اس وقت تاج اور ہمایوں مقبرے جیسی باتیں محض اس لیے ہو رہی ہیں کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی جیسی کوئی مسلم تنظیم کھڑی ہو جائے ،جو تاج محل اور ہمایوں مقبرےکی حفاظت کے لیے سرکاری خرچے پر ڈھو ڈھو کر مسلم ریلیاں کروائیں، جہاں نعرۂ تکبیر بلند ہو جس کو ٹی وی لائیو پورے ہندوستان کو دکھائے تاکہ ہندو ؤں کو مسلمانوں کا خوف پیدا ہو اور پھر وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں لاکھوں ہندوؤں کا مجمع اکٹھا کر کے گجرات جیسے حالات پیدا کر دیں ،جس میں ایک چھوٹی سی چنگاری وہ کام کرے جو سن 1992 میں ایودھیا میں ہوا یاسن 2002 میں گجرات میں ہوا تھا۔

لیکن ابھی تو عام انتخابات میں دو برس سے زیادہ وقت باقی ہے۔ بی جے پی کو ابھی سے ہندو رد عمل کی کیا ضرورت ہے۔ گجرات چناؤ سر پر ہیں اور ٹی وی سروے کے باوجود گجرات میں زمین بی جے پی کے پیروں تلے سے نکلتی نظر آرہی ہے۔ پٹیل، دلت، پسماندہ ذاتیں تو بی جے پی کے خلاف گجرات میں شمشیر بہ کف ہیں ہی، وہاں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ گجراتی تاجر جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے اس قدر پریشان ہے کہ اس نے بھی مودی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے۔ گجراتی تاجر برسوں سے ’ہندوتوا وادی‘ رہا ہے۔ وہ گجرات میں بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر چناؤ میں اس نے ہی ساتھ چھوڑ دیا تو پھر چناؤ لڑے کیسے جائیں گے!

بی جے پی کی مشکل کشائی کا محض ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے ’مسلمان‘! جیسے ہی ہندو کے دماغ پر مسلم خوف یا مسلم غصہ سوار ہو جاتا ہے ویسے ہی وہ اپنی ساری مصیبتیں بھول جاتا ہے اور پھر اس کو مودی جی ’ہندو اَنگ رکشک‘ لگنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ایک بابری مسجد ایکشن کمیٹی یا ایک گودھرا نہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب پہلے مسلمان کو غصہ آئے۔

اس لیے ابھی ساری کوشش یہ ہے کہ مسلمان کو غصہ آئے۔ اس لیے کبھی قصاب خانے بند تو کبھی موب لنچنگ۔ جب یہ سب نہیں چلا تو مغلوں کو لعنت ملامت۔ یہ بھی کافی نہیں تو تاج محل اور ہمایوں کا مقبرہ گروانے اور زخم پر نمک چھڑکنے کے لیے ایک نام نہاد شیعہ کو سنی مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا۔

اس لیے وسیم رضوی جیسوں کی حیثیت بی جے پی کی سیاسی بساط پر کسی ادنیٰ پیادے سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے جیسوں کا نہ تو شیعوں سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی مغلوں سے ان کو کوئی مطلب۔ ویسے یہ بھی ذکر کر دوں کہ اکھلیش یادو کی حکومت کے وقت تک یہی وسیم رضوی اعظم خان کے معتمد خاص تھے اور اس وقت بھی ان کی ایما پر شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین تھے۔ اس پورے دور میں انہی وسیم رضوی کا سب سے زیادہ جھگڑا شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد سے تھا۔ اب یہی وسیم رضوی بی جے پی کی بساط کا مہرہ ہیں۔ اور آپ تو واقف ہیں:

جعفر از بنگال وصادق ازدکن

ننگ آدم،ننگ دیں،ننگ وطن

ہر دور میں جعفر و صادق ہوتے ہیں۔ وہ کبھی رضوی ہو سکتے ہیں اور کبھی کچھ اور۔ اس لیے بس خاموش رہیے۔ جیسے آپ نے اب تک صبر سے کام لیا ہے ویسے ہی خون کا گھونٹ پی کر صبر اور خاموشی سے کام لیجیے۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس وقت جو بھی مسلم قیادت کا ٹھیکا لیتا ہے وہ بی جے پی کا مہرہ ہے۔ یہ وقت کٹ جائے گا۔ بس عقل اور خاموشی کا دامن مت چھوڑیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔