خوف سے نہیں جرأت سے کام لینے کی ضرورت
آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت ممکن نہیں۔ یہ ہم ہندوستانیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہم آزاد ہیں اور اس آزادی کو آج 70 برس ہو گئے۔ ان 70 برسوں میں ہندوستان کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔اس کا تصور جلد ممکن نہیں ہے۔ میرے ذہن میں سنہ 1960 کی دہائی سے ہونے والے واقعات کی یادیں آج بھی بخوبی نقش ہیں۔ میری ولادت الٰہ آباد شہر کے ایک باعزت زمیندار گھرانے میں ہوئی تھی۔ ہم ایک حویلی میں پروان چڑھے۔ لیکن ہمارے گھر کے ارد گرد زیادہ تر کچے مکان ہوا کرتے تھے۔ برساتوں میں آسمان پھاڑ کر بارشیں ہوتی تھیں۔ ہر برسات میں ایک دو مکان گرنے کی خبریں آتی تھیں۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر میں بجلی اور ریڈیو تھا۔ یہ تو شہروں کا عالم تھا۔ دیہاتوں کی زندگی کچھ ’مدر انڈیا‘ فلم جیسی تھی۔ جیسے ’مدر انڈیا‘ میں سکھی لالا بنیا گاؤں میں لوگوں کو قرض دے کر ان کی زندگی مٹھی میں کر لیتا ہے، ویسے ہی دیہاتوں میں عام ہندوستانی کی زندگی دیہات کے ایک ’سکھی لالا‘ کی قید میں ہوتی تھی۔
آج کا ہندوستان بہت بدل چکا ہے۔ اب میں دہلی سے جب اپنے وطن الٰہ آباد جاتا ہوں تو مجھے کوئی کچا مکان نظر نہیں آتا ہے۔ سڑکیں پکی ہو چکی ہیں۔ ہر گھر میں بجلی اور ٹی وی ہے۔ بہت سارے افراد کے پاس کار ہے۔ موٹر سائیکل تو ہر لڑکا دوڑا رہا ہے بلکہ لڑکیاں بھی خوب چلا رہی ہیں۔ ہر گھر سے لڑکا لڑکی سب پڑھنے جا رہے ہیں۔ کم از کم شہر میں تو کہیں سے فاقے کی خبر نہیں آتی ہے۔ دیہاتوں میں بھی پکے مکان اور پکی سڑکیں دوڑ رہی ہیں۔ ’مدر انڈیا‘ کا ’سکھی لالا‘ اب صرف فلمی کردار بن کر رہ گیا ہے۔
آزادی کے ان 70 برسوں میں سے تقریباً ساٹھ برس کانگریس پارٹی برسراقتدار رہی۔ یعنی ملک میں جو بھی مثبت تبدیلی آئی ہے اس کی سب سے زیادہ کانگریس ذمہ دار ہے۔ آزادی کی 70ویں سالگرہ پر یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان آج اگر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے تو اس میں کانگریس پارٹی کی حصہ داری سب سے زیادہ ہے۔ اگر چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں ہندوستانی کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں پہنچ گئے ہیں اور آج اپنے ہاتھوں میں موبائل فون لے کر گھوم رہے ہیں تو ہندوستانیوں کی زندگی میں اس نمایاں تبدیلی کا سب سے بڑا حصہ بھی کانگریس کے ہی کھاتے میں جاتا ہے۔
یہ بات یہاں گوش گزار کروانی اس لیے ضروری تھی کہ آج ہندوستان کی ہر پریشانی اور برائی کی ذمہ داری کانگریس پارٹی کے سر تھوپی جا رہی ہے۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ اس ملک کو جمہوریت سے روشناس کروانے والی حکومت بھی کانگریس حکومت تھی۔ ملک کو آئی آئی ٹی اور بھاکھڑا نانگل ڈیم بھی دینے والی کانگریس حکومت تھی۔ اس ملک سے غریبی ہٹانے کا عزم بھی کانگریس کا ہی تھا۔ چاند پر ہندوستانی راکٹ کو کانگریس نے ہی بھیجا تھا۔ آج عام ہندوستانی اگر چھوٹی کاروں میں چل رہا ہے تو اس کو سب سے پہلے چھوٹی’ ماروتی‘ کار دینے والی حکومت بھی کانگریس حکومت ہی تھی، اور اگر اب ہر ہاتھ میں موبائل فون ہے تو اس کو اس ملک میں سب سے پہلےمو بائل فون لانے کا سہرا بھی کانگریس حکومت کے سر ہی جاتا ہے۔
دراصل آزاد ہندوستان کا تصور بغیر کانگریس پارٹی کے کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ وہ جنگ آزادی رہی ہو یا پھر آزادی کے بعد اس ملک میں آنے والی مثبت تبدیلیاں، یہ سب کانگریس کا ہی کمال ہے۔ کانگریس کے علاوہ دوسرے بھی حکومت میں آئے۔ سنہ 1977 میں جنتا پارٹی کے پرچم تلے مرکز میں پہلی غیر کانگریس حکومت برسراقتدار آئی۔ تین برس سے کم مدت میں آپسی لڑائی جھگڑوں کا شکار ہو گئی۔ جس حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم مرار جی دیسائی کو اپنے وزیر داخلہ چرن سنگھ سے ہر وقت لڑنے سے فرصت نہ رہی ہو، بھلا وہ وزیر اعظم ملک کی ترقی کے لیے کیا سوچ سکتا ہے!
پھر سنہ 1989 میں وی پی سنگھ جنتا دل کے پرچم تلے وزیر اعظم بنے۔ گیارہ مہینوں میں ملک میں مستقل غیر استحکام رہا۔ روز حکومت میں دیوی لال اور چندر شیکھر اڑنگے ڈالتے رہے۔ آخر گیارہ مہینوں بعد وی پی سنگھ حکومت بھی گرا دی گئی۔ پھر چار مہینوں کے لیے چندر شیکھر حاکم وقت ہوئے اور بری طرح انتخاب ہارے۔ پھر 1998 سے سنہ 2004 تک واجپئی کی حکمرانی رہی جس میں کوئی ایسا نمایاں کام تو نہیں ہوا جس کا ذکر کیا جائے۔ پاکستان کے ساتھ امن کی کوشش تو واجپئی نے ضرور کی لیکن وہ کوشش بھی کارگل جنگ کی نذر ہو گئی۔
اب سنہ 2014 سے نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ مودی حکومت کے دور اقتدار میں ہندوستان اتنا بدلا کہ کچھ پاکستان جیسا لگنے لگا۔ جب منموہن سنگھ نے سنہ 2014 میں اقتدار چھوڑا تو ملک کا گروتھ ریٹ 7 فیصد سے زیادہ تھا۔ اب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ گروتھ ریٹ 6 فیصد تک پہنچ جائے تو بہت اچھا رہے گا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے نہ صرف دکانداروں کی کمر توڑ دی ہے۔بلکہ نومبر 2016 یعنی نوٹ بندی کے وقت جوسینکڑوں چھوٹے روزگار جو بند ہوئے تو آج تک ٹھیک سے کھل نہیں سکے۔ نوجوانوں کو روزگار ملنا تو درکنار، جو روزگار سے جڑے تھے وہ بھی آئے دن بے روزگاری کے شکار ہو رہے ہیں۔ ہندوستان ان حالات میں کتنا بدلا، خود تصور کر سکتے ہیں۔ ہاں سنتے ہیں مودی جی کے راج میں امبانی اور اڈانی کے مزے ہیں۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے تین برسوں میں مکیش امبانی ہندوستان کے سب سے رئیس شخص سے بڑھ کر اب ایشیا کے سب سے زیادہ دولتمند شخص ہو گئے، جب کہ میرا ڈرائیور سلیم آج ہی شکایت کر رہا تھا کہ صاحب پچھلے دو مہینوں میں اس قدر مہنگائی بڑھی ہے کہ تنخواہ میں گزر نہیں ہو رہا ہے۔
ہاں! مودی راج میں ہندوتوا کا ڈنکا ضرور بج رہا ہے۔ سنہ 1947 سے قبل اور اس کے بعد بھی فساد اس ملک میں ہمیشہ ہوئے۔ لیکن اخلاق اور جنید کو گائے کے گوشت کھانے کے الزام میں بے وجہ پیٹ پیٹ کر مارا جائے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ سنہ 1947 میں آزادی کے ساتھ ساتھ ملک کا بٹوارا بھی ہوا تھا۔ لاکھوں افراد سرحد کی جانب سے اِدھرسے اُدھر بے سر و سامانی کے عالم میں ہندوستان سے پاکستان اور وہاں سے یہاں آئے۔ جناح کی فرقہ پرست سیاست نے وہ آگ لگائی تھی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دل بھی بٹ گئے تھے۔ لیکن اس نفرت کی آگ پر گاندھی جی کی قربانی اور جواہر لال نہرو کی قیادت نے جلد ہی پانی چھڑکنے کا کام کیا تھا۔
لیکن آزادی کے 70 برس بعد نفرتوں کا یہ عالم ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ملک کے نائب صدر کی الوداعی تقریب میں حامد انصاری سے تقریباً یہ کہتا ہے کہ ’’تم تو مسلمان ہو، مسلمان ہی رہو گے۔‘‘ پھر دوسرے دن آر ایس ایس کا پرچارک اندریش کمار یہ فرماتے ہیں کہ ’’حامد انصاری وہاں چلے جائیں جہاں وہ خود کو محفوظ محسوس کریں۔‘‘ سابق نائب صدر حامد انصاری کا گناہ صرف اتنا تھا کہ انھوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ آج کے ہندوستان میں مسلمان، دلت اور اقلیتیں خوف کے شکار ہیں۔
کیا یہ غلط بات تھی! ملک میں اخلاق اور جنید ہوگا تو کیا اس کے ہم مذہب خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔ ارے گھر کے اندر جان کی امان نہیں، چلتی ٹرین سے کھینچ کر مارا جا رہا ہے، کبھی ’اذان کا شور‘ معیوب ہو جاتا ہے، تو پھر کتابوں سے مغلوں کا ذکر مٹا دیا جاتا ہے... یہ اقلیتوں کے دل میں عدم تحفظ نہیں تو اور کیا پیدا کرے گا۔ بے شک آج ہندوستانی یوم آزادی کی صبح کسی سرحد کا تو بٹوارا نہیں ہواہے، لیکن پچھلے تین برسوں میں جو نفرت اور فرقہ پرستی کی آگ بوئی گئی ہے اس نے دلوں کے بیچ ایک بار پھرلکیر کھینچ دی ہے۔
اس یوم آزادی پر ہندوستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ دلوں کا بٹوارا ہے جو نفرت کی سیاست نے جنم دیا ہے۔ اس بٹوارے سے کانگریس اسی طرح لڑ سکتی ہے جیسے اس نے سنہ 1947 میں پہلے بٹوارے کے بعد نفرت سے لڑائی لڑی تھی۔ لیکن اس کے لیے کانگریس پارٹی کو جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی جیسی جرأت کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔
ہر ہندوستانی کو ملک کے 70ویں یوم آزادی کی دلی مبارکباد۔ یاد رکھیے کہ یہ ملک بڑا عظیم ہے۔ ہر ملک کی تاریخ میں مشکل وقت آتے ہیں۔ ہندوستان نظریاتی اعتبار سے بیشک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اس مشکل وقت میں خوف سے نہیں جرأت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
آئیے ہم سب ہندوستانی خوف کے سائے سے نکل کر اور مل جل کر جشن آزادی کی خوشیاں منائیں اور ہندوستان کو اس بلندی تک پہنچائیں جہاں سے کوئی سایہ بد اس ملک کو کبھی اثر انداز نہ کر سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔