اللہ بچائے ان مسلم قائدین سے!

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

پہلے بابری مسجد گئی، پھر تین طلاق گیا، اب دیکھیے اور کیا کیا جاتا ہے۔ بلکہ سنہ 1757 میں بنگال میں سراج الدولہ کی شکست کے بعد سے اب تک مسلمان کی قسمت میں شکست و مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ہندوستانی مسلمان خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کر رہا ہے۔ کبھی موب لنچنگ کے واقعات تو کبھی عیدالاضحی پر قربانی کی دقتیں۔ الغرض اس اکیسویں صدی میں اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود مسلمان اب اپنے کو دلتوں سے بھی زیادہ مجبور محسوس کر رہا ہے۔

ایسی کیا بات ہے کہ جو قوم کبھی حاکم رہی ہو وہ آج محکومی کا شکار ہے۔ سنہ 1757 سے لے کر طلاق ثلاثہ کے فیصلے تک تقریباً تین سو سال کا عرصہ ہونے کو آ رہا ہے اور مسلم اقلیت کو کہیں روشنی نظر نہیں آ رہی ہے۔ آج بھی وہ اندھیروں کا شکار ہے اور اب اس کی عقل گم ہو چکی ہے۔ کدھر جائے، کیا کرے، کس کو اپنا سمجھے۔ کسی سوال کا جواب نظر نہیں آتا۔

پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک اس زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے۔ سب سے پہلے تو اس ملک کی مسلم اقلیت کو بے دست و پا کرنے والی شخصیت کا نام محمد علی جناح ہے۔ جناح صاحب ملک کا بٹوارا کروا کر خود صدر پاکستان ہو گئے لیکن وہ ہندوستانی مسلمان کے ماتھے پر غدار ہونے کا کلنک لگا گئے۔ مسلم فرقہ پرستی نے ہندو فرقہ پرستوں کے لیے دروازے کھول دیے اور سنگھ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس ملک کی اکثریت کے ذہنوں میں زہر گھول سکے کہ اگر مسلمانوں کے لیے پاکستان بن سکتا ہے تو ہندوؤں کے لیے ہندو ہندوستان کیوں نہیں۔ اسی دلیل پر مبنی ہندوستان ہندو راشٹر کی کگار پر ہے۔

اس ملک کی مسلم اقلیت اب اس قدر بے یار و مددگار ہو چکی ہے کہ ملک کی سیکولر پارٹیاں بھی اس کی حمایت سے خائف ہیں۔ ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر سیکولر پارٹیوں نے مسلم حمایت کی تو ہندو ووٹ بینک ان سے ناراض ہو جائے گا۔ یعنی جناح صاحب کی مسلم فرقہ پرستی سے ہندو فرقہ پرستی کو جو قوت ملی اس نے 70 برسوں میں ہندوستان کو ہندو راشٹر کی کگار پر لا کھڑا کیا جس کا سب سے بڑا شکار اس ملک کی مسلم اقلیت ہے جو اب کم و بیش دوسرے درجے کی شہری بن چکی ہے۔

پھر جناح کی سیاست نے برصغیر کے مسلمانوں کو تین حصوں میں بانٹ دیا۔ اگر آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش یعنی تینوں ملک کی مسلم آبادی ایک ہوتی تو یہ کس قدر بڑی جمہوری قوت ہوتی۔ جمہوریت ایک نمبر گیم ہے۔ اس نمبر گیم میں موجودہ تین الگ الگ ممالک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مجموعی مسلم آبادی ایک متحدہ ووٹ بینک ہوتا تو کیا کوئی مودی یہ جرأت کر سکتا جو آج ہو رہا ہے۔ محمد علی جناح ہندوستانی مسلم اقلیت کو ایک ایسے جہنم میں دھکیل کر چلے گئے جس کی آگ میں جھلستے رہنا اب اس کی قسمت ہو چکی ہے۔ یعنی آزادی کی صبح ہندوستانی مسلم اقلیت کے لیے ایک نئی غلامی کا پروانہ لے کر آئی جس سے اب چھٹکارا ملنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔

پھر بٹوارا دوسری اور مشکلات بھی ساتھ لے کر آیا اور وہ مسئلہ تھا مسلم قیادت کا۔ آزادی کے بعد اس ملک میں دو طرح کے مسلم قائدپیدا ہوئے۔ ایک وہ جنھوں نے اپنے کو سیکولر پارٹیوں کے ساتھ جوڑ لیا۔ ان میں سے زیادہ تر کانگریس پارٹی میں شریک ہوئے۔ ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک سیکولر سیاست کا حصہ تھے۔ اس لیے وہ مسلم ایشوز پر اگر اپنی آواز اٹھاتے تو وہ فرقہ پرست کہلاتے۔ اس لیے ملک میں فساد ہوتے رہے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ یعنی سیکولر جماعتوں میں موجود مسلم قائد کہنے کو مسلم نمائندگی تو کرتا ہے لیکن وہ مجموعی مسلم مفاد میں آواز بلند نہیں کر سکتا ہے۔ یہ بھی بٹوارے کی سیاست کا اثر تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے مسلم قائدین کے ذاتی مفاد تو حل ہوئے، لیکن وہ مسلم اقلیت کے مفاد میں کچھ نہیں کر سکے۔ تب ہی تو مسلم اقلیت کا اب یہ حال ہے کہ وہ بہت معاملات میں دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔

آزادی کے بعد مسلم قیادت کا دوسرا گر وہ جو ابھر کر سامنے آیا اس نے مختلف علاقوں میں خالص مسلم مسائل کے نام پر اپنی پارٹیاں بنانا شروع کیں۔ مثلاًاتر پردیش میں ڈاکٹرفریدی نے سنہ 1960 کی دہائی میں مسلم مجلس نام کی پارٹی بنائی جن کا سورج جلد ہی غروب ہو گیا۔ خصوصاً مشرقی ہندوستان میں خاص طور پر یہ تجربہ ناکام رہا۔ اس سے سب سے بڑا خدشہ یہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی خالص مسلم پلیٹ فارم بنایا گیا تو اس کا ہندو رد عمل پیدا ہوگا جس سے سنگھ اور بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ چنانچہ یہ تجربہ بھی ناکام رہا۔ اور کوئی ایماندار اور بھلی مسلم قیادت اس تجربے سے پیدا نہیں ہو سکی۔ آخر میں ایسی تنظیمیں بے معنی اور بے سود ہو گئیں اور پھر ذاتی مفاد یا پھر ذاتی ترقی کا ذریعہ بن گئیں۔

پھرایمرجنسی کے بعد یعنی سنہ 1977 میں اس وقت جنتا پارٹی نے ایک بالکل نیا تجربہ کیا۔ اس تجربہ کے تحت جنتا پارٹی نے دہلی جامع مسجد کے پیش امام مرحوم عبداللہ بخاری کو اندرا گاندھی کے خلاف کھڑا کیا جنھوں نے اس وقت پورے مشرقی ہندوستان میں گھوم گھوم کر اندرا گاندھی کو مسلم دشمن قرار دیا۔ عبداللہ بخاری نے جنتا پارٹی کو سنہ 1977کے انتخاب میں کامیاب بنوانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس طرح سنہ 1977 میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے فتوے کی سیاست اور باقاعدہ کھل کر علمائے دین کا مسلم سیاست میں استعمال شروع ہوا۔ بس وہ دن اور آج کا دن مسلم سیاست علماء دین کی غلام بن چکی ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر ٹی وی ڈیبیٹ میں ایک یا دو ملّا نما شخص کو یہ ظاہر کرنے کے لیے بٹھایا جاتا ہے کہ یہ مسلم نمائندے ہیں خواہ ان کا کوئی مسلمانوں سے لینا دینا ہو یا نہیں۔

پھر شاہ بانو کیس اور بابری مسجد نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی تنظیموں کو مسلم قاید بنا دیا۔ ایکشن کمیٹی کے چند افراد اپنی جگہ ترقی تو کر گئے لیکن سنہ 1992 میں نہ بابری مسجد بچی اور نہ ہی مسلمان بچا۔ مسجد تو گئی ساتھ ہی تقریباً ہر شہر میں مسلمان مارا گیا یا کرفیو میں بند خوف کی سانس لیتا رہا۔ ایسے ہی طلاق ثلاثہ اور مسلم پرسنل لاء کی لڑائی لڑنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نام تو آج بھی زندہ ہے لیکن مسلم حق طلاق ثلاثہ تو گیا ہی اور اب پرسنل لاء کی بھی خیر نہیں۔

الغرض سنہ 1947 سے اب تک مسلم سیاست میں جو بھی سیاسی تجربے کیے گئے وہ سب ناکام رہے۔ اب اس وقت مسلم قیادت کا ٹھیکا کچھ علماء اور کچھ قدامت پسند افراد کے پاس ہے جن کے اپنے ذاتی مفاد تو حل ہو رہے ہیں لیکن ان کی سیاست سے ہندوستانی مسلم اقلیت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ آج مسلم سیاست اس ملک میں ہندو سیاست کو قوت تو بخش رہی ہے اور کچھ افراد کے ذاتی مفاد بھی پورے ہو رہے ہیں لیکن خود مسلم قوم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس ملک کی مسلم اقلیت طرح طرح کی مسلم سیاسی دکانوں اور نام نہاد مسلم قائدوں سے نجات حاصل کرے ورنہ اس کی زندگی جس قدر جہنم بن چکی ہے وہ اس سے بھی زیادہ جہنم ہو جائے گی۔

بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ کے معاملے سے یہ طے ہے کہ علمائے دین کی قیادت ناکام ہے۔ اسی طرح مسلم جذباتی ایشوز کا استعمال کرنے والی مقامی پارٹیاں ایک خاندان اور چند افراد کے حق میں تو ہو سکتی ہیں لیکن مسلم عوام کے حق میں نہیں ہیں۔ فی الحال کسی پارٹی نہیں بلکہ مسلم دانشوران پر مشتمل ایک سوشل پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو آپسی رائے سے مسائل کا حل تلاش کر سکے اور مسلم اقلیت کو 21ویں صدی کے تقاضوں سے دو چار ہونے کا اہل بنا سکے۔ اگر مسلم اقلیت ابھی بھی روایتی قیادت کی غلام رہی تو مستقبل میں بھی محض ناکامی اور مایوسی ہی ہاتھ آئے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔