کیا 2019 تک اتحاد باقی رہے گا؟

اتحاد ابھی مستقبل کے پیٹ میں ہے۔ لیکن اس حوالہ سے بحث زوروں پر ہے۔ ہر گلی اور چوراہے پر لوگ کل سے اس بارے میں چٹخارے لےکر باتیں کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

لکھنؤ: گورکھپور اور پھول پور لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخابات کے بعد اترپردیش کی سیاسی فضا میں ملین ڈالر سوال پیدا ہوگیا ہےکہ کیا سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا یہ اتحاد 2019 تک برقرار رہے گا۔

دونوں ضمنی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی نے سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو حمایت دی تھی۔ اس کے عوض میں سماج وادی پارٹی نے راجیہ سبھا میں بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد سماج وادی پارٹی صدر اکھلیش یادو بہوجن پارٹی کی سربراہ مایاوتی سے ملاقات کرنے ان کے گھر گئے۔ یادو پہلی مرتبہ محترمہ مایاوتی کے گھر گئے تھے۔

ضنی انتخابات کے نتائج سے دونوں پارٹیوں کے کرکنان پرجوش اور حوصلہ سے پر ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے لوگ 1993 میں سماج وادی کے اس وقت کے صدر ملائم سنگھ یادو اور بہوجن سماج پارٹی کے بانی کانشی رام کے درمیان ہوئے معاہدہ کو یاد کررہے ہیں۔ معاہدہ کے عینی شاہد اور کانشی رام کے سپاہ سالار و بہوجن سماج پارٹی کوآرڈینیٹر رہے آر کے چودھری بتاتے ہیں کہ 1993 میں دونوں لیڈران کے درمیان معاہدہ ہونے میں ایودھیا تنازع کا اہم کردار رہا ہے۔

بہوجن سماج پارٹی کو الواداع کہہ سماج وادی پارٹی کا دامن تھامنے والے مسٹر چودھری نے یواین آئی کو بتایا کہ 6 دسمبر 1992 کو کلیان سنگھ کے وزیر اعلی کے منصب پر ہوتے ہوئے متنازع ڈھانچہ گرادیا گیا تھا۔ کانشی رام اسی دن بستی میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی یوم پیدائش کے سلسلہ میں منعقد ایک پروگرام کو خطاب کر رہے تھےاور وہ خود فیض آباد کے بالدہ محلہ میں اسی طرح کے ایک پروگرام میں شامل تھے۔

چودھری نے بتایا کہ متنازع ڈھانچہ گرانے کی خبر پاتے ہی کانشی رام پروگرام کو ختم کرکے فوری طور پر لکھنؤ آگئے۔ مجھے بھی ان کے ساتھ آنا پڑا۔ کانشی رام نے7 دسمبر 1992 کو دہلی میں ملائم سنگھ یادو سے ملاقات کر کے اتحاد قائم کرنے کی بات کی۔ 29 جون 1993 کو کانشی رام نے بتایا کہ کمزور اور پچھڑے طبقات کو متحد کرنے کی ان کی مہم کو اقتدار کے بغیر مضبوطی نہیں مل سکے گی۔ اس لئے ملائم سنگھ سے سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کانشی رام ایودھیا کے متنازعہ ڈھانچہ کو منہدم کئے جانے سے دل برداشتہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے دلتوں اور کمزوروں پر ظلم ڈھایا گیا اور اب مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مجھ سے وکالت چھوڑنے کی اپیل کی۔ وکالت چھوڑتے ہی انہوں نے 30 جون 1993 کو مجھے بی ایس پی کا كوآرڈنیٹر بنا دیا۔ ملائم سنگھ یادو سے سیٹوں کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا۔ جس سیٹ پر گزشتہ انتخابات (1991) میں سماجوادی جنتا پارٹی بی ایس پی سے آگے تھی وہاں سماج وادی پارٹی کے امیدوار کھڑے کئے گئے اور جہاں بی ایس پی آگے تھی وہاں سے بی ایس پی کے امیدوار کھڑے کئے گئے۔

چودھری نے کہا کہ معاہدہ ہوگیا۔ بی ایس پی کو کل 425 اسمبلی نشستوں میں سے 67 سیٹ ملی ۔ سماج وادی پارٹی نے 100 سے زائد نشستیں جیتیں۔ اس معاہدے کے باوجود مطلق اکثریت نہیں مل سکی۔ بعد میں کانگریس کی حمایت سے ملائم سنگھ یادو کی قیادت میں4 دسمبر 1993 کو حکومت تشکیل دی گئی۔ ایک بی ایس پی اور ایک سماج وادی پارٹی کے وزیر کی ترتیب سے وزراء نے حلف لیا۔ ملائم سنگھ یادو کے بعد انہوں نے ہی حلف لیا تھا۔

سماج وادی پارٹی میں شامل ہونے کے باوجود چودھری بی ایس پی صدر مایاوتی کے بارے میں کچھ بھی نہیں بولنا چاہتے۔ مایاوتی سے اختلافات کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے کی بھلائی اور بی جے پی کو شکست دینے کے لئے سماج وادی اور بی ایس پی میں سمجھوتہ ہونا چاہئے۔ اور ضرورت ہو تو کانگریس کی بھی مدد لی جائے۔

دوسری طرف بی جے پی حامیوں کا خیال ہے کہ مایاوتی معاہدے کیلئے اتنی شرطیں رکھ دیں گی کہ سماج وادی پارٹی کے لئے اتحاد کی راہ آسان نہیں ہوگی۔ بی جے پی کے تئیں نرم رخ رکھنے والے راکیش ترپاٹھی کہتے ہیں کہ اتحاد پروگراموں اور ہم خیال لوگوں سے ہوتا ہے۔ صرف اقتدار کےلئے اتحاد نہ ہی عوامی مفاد میں ہوتا ہے اور نہ ہی بہت دنوں تک قائم رہتا ہے۔

بہرحال اتحاد ابھی مستقبل کے پیٹ میں ہے۔ لیکن اس حوالہ سے بحث زوروں پر ہے۔ ہر گلی اور چوراہے پر لوگ کل سے اس بارے میں چٹخارے لےکر باتیں کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔