یو پی میں نظم و نسق کی بگڑتی صورتحال، یوگی حکومت پر اٹھے سوال

بھرے جلسے میں منتخب عوامی نمائندوں کے درمیان جوتم پیزار کے خلاف قانونی یا اخلاقی کارروائی کے فقدان کے سبب بی جے پی کے ساتھ ہی ریاستی حکومت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت ریاست میں نظم ونسق کے بہترہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی ناک کے نیچے ہی ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس سے اکثر ریاستی حکومت کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ دسمبر2018 میں بلندشہرمیں ہوئے تشدد اور نام نہاد قوم پرستوں کی بھیڑ کے ہاتھوں پولس انسپکٹر کا قتل اور نامزد ملزمین کی گرفتاری میں تاخیر سے نظم ونسق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بی جے پی انتظامیہ ہرطرف سے لعنت و ملامت کا سامنا کر رہی تھی اورحد توتب ہوگئی جب کئی ماہ بعد پولس کے ذریعہ تیار کی گئی چارج شیٹ میں کلیدی ملزم بتائے جا رہے بی جے پی کی حواری تنظیم بجرنگ دل کے لیڈر یوگیش کمار کو انسپکٹر کے قتل معاملے کا ذمہ دار ہی نہیں مانا گیا۔

ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی حکومت میں قتل جیسے سنگین جرم کے باوجود قوم پرستی کا نعرہ لگانے والوں کوکوئی گزند نہیں پہنچے گی اور پھر بھی نظم ونسق درست ہونے کے دعوے کیے جاتے رہیں گے۔ ’اپنوں‘ کے ساتھ انتہائی دریا دلی صرف بی جے پی حکومت میں ہی نظر آئے گی۔اب چاہے پارٹی کا کوئی ایم پی اپنے ہی ایم ایل اے کو جوتوں سے پیٹے اورگالیاں دے یا سرکاری املاک کونقصان پہنچائے لیکن اس کے خلاف نہ تو پولس کی طرف سے قانونی کارروائی کی جائے گی اور نہ ہی پارٹی کے ذریعہ اخلاقی بنیاد پر ڈسپلن کے نام پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔

نظم ونسق کے خراب ہونے کی دوسری بڑی مثال بی جے پی کے اپنے ہی گھر میں ہی دیکھی جا رہی ہے۔چند روز قبل اتر پردیش کے سنت کبیر نگر کے کلیکٹریٹ دفتر میں بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ اور رکن اسمبلی کے درمیان جم کر مارپیٹ، گالم گلوج اور دھمکیوں کے بعد ان کے حامیوں کی طرف سے توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ ریاستی بی جے پی ہائی کمان نے اسے ضابطہ شکنی کا معاملہ بتاتے ہوئے لیڈروں کو پھٹکار لگائی اور معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔

دوسری طرف پولس کی طرف سے تعزیرات ہند کی دفعہ 143 (غیر قانونی بھیڑ)، دفعہ427 (شرارتی عناصر) اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے معاملے میں لیپا پوتی کر دی گئی۔ ضلع منصوبہ کمیٹی کی اس میٹنگ میں ریاستی حکومت کے وزیر، ضلع مجسٹریٹ، ایم پی، ممبران اسمبلی سمیت کئی دیگر افسران بھی شامل تھے۔ اس معاملے میں نہ تو ویڈیو سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈروں کی سازش کا الزام اور نہ ہی کسی فریق نے اس واقعہ سے انکار کیا ہے، تو پھر مجرم لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوئی؟

اس پورے واقعے میں تین طرح کے مجرمانہ عمل ہوئے ہیں۔ اول، عوامی نمائندوں سے مارپیٹ، دوسر ے، سرکاری املاک کو نقصان اور تیسرا، مجرمانہ تشدد۔ گالم گلوج، دھمکی اور پٹائی کے لئے آئی پی سی کی کئی دفعات کے تحت ممبر اسمبلی اور ایم پی دونوں کے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا۔ ممبر اسمبلی یا ممبر پارلیمنٹ مار پیٹ کے باوجود اگر معاملے درج نہیں کراتے توکلیکٹریٹ کے چشم دید افسران کو مجرم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرا کے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تھی۔ سرکاری میٹنگ میں ایم ایل اے کو جوتے اور ایم پی کو تھپڑ پڑنے کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوا تو اس سے غیر سماجی عناصر کا حوصلہ مزید بڑھے گا۔ مستقبل میں کوئی شخص رکن اسمبلی اور ایم پی کے ساتھ اگر زیادتی کرے تو پھر ان معاملات میں مجرمانہ کارروائی کس طرح ہوگی؟۔

جوتے بازی کے بعد ایم پی اور ایم اے ایل کے حامیوں کی طرف سے کلیکٹریٹ احاطے میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ پولس افسران کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی۔ مشتعل لوگوں نے ٹی وی چینل والوں کو انٹرویو دیتے ہوئے ممبر اسمبلی اور ایم پی پر تشدد کے سنگین الزام لگائے۔ ایسے موقع پر سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا کہ سیاستدانوں کے حامیوں کی طرف سے کیے گئے نقصان کے لئے ان کے رہنماؤں کی ذمہ داری اور جوابدہی ہوتی ہے۔ بھرے جلسے میں عوامی نمائندوں کے درمیان مارپیٹ پرقانونی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے ساتھ ہی ریاستی حکومت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سنگین معاملے میں کارروائی نہ ہونے سے ملزمین کے حوصلے بلند ہوں اور دونوں فریقوں کے حامی آئندہ کسی بڑی واردات کوانجام دیتے نظر آئیں۔

سرکاری املاک کے نقصان کے لئے رکن اسمبلی اور ایم پی دونوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے ہی عام لوگوں میں قانون کے تئیں احترام بڑھے گا۔ ان الزامات کے پیش نظر ایم ایل اے اور ایم پی کے خلاف لوک آیکت یا دیگر ایجنسی کے ذریعہ جانچ ہونی چاہیے۔ سنت کبیر نگر میں سڑک کے سنگ بنیاد کی تختی پر ایم پی کا نام نہ ہونے سے یہ نازیبا واقعہ رونما ہوا۔

اتر پردیش سمیت تمام ریاستی حکومتوں نے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے احترام کے لئے پروٹوکول مقرر کیا ہے۔ جمہوریت کے ان محافظین کو سرکاری محکموں میں معزز کا درجہ ملتا ہے۔ سرکاری میٹنگ میں رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی کی طرف سے ایک دوسرے کو پیٹے جانے پر ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ کا وقار بھی تحلیل ہوا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کا نوٹیفکیشن ابھی جاری نہیں ہوا ہے تو پھر ممبرپارلیمنٹ کی پٹائی پر لوک سبھا اسپیکر اور استحقاق کمیٹی کی طرف سے کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ ممبر اسمبلی کو ایم پی کے ذریعہ جوتے سے پیٹے جانے پر ریاستی اسمبلی کی طرف سے اگر کارروائی نہیں کی گئی تو عام لوگوں میں اس کا کیا پیغام جائے گا؟۔ عوام لیڈروں کواس مقصد سے ووٹ دے کرمنتخب کرتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت ان کی آواز کو ایوان اقتدار تک پہنچایا جائے،ان کے مسائل حل کیے جائیں، نہ کہ جیتنے کے بعد لیڈر اپنی دنیا میں مست ہوجائیں اوراپنے محسن عوام کو فراموش کر دیں۔

انتخابات کے پہلے پورے ملک میں سنگ بنیاد اور افتتاح کا سیلاب آیا ہوا ہے، ہر روز کہیں نہ کہیں کروڑوں کی لاگت سے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنی ہوئی ہیں، بہتی گنگا میں ہرکوئی ہاتھ دھونے کے لئے بیتاب ہے۔ لیڈروں کی تشہیر بازی کے کھیل میں لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہے کہ یہ تومحض نام ونمود حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ سنگ بنیاد اور افتتاح میں پارٹی اور حکومت کے درمیان ختم ہوتا فرق، جمہوریت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ نظام انصاف کے اصولوں کے مطابق جو شخص حق اور منظوری لے، اسے جواب دہی بھی لینی چاہیے۔ سنگ بنیاد کے نام پر عوام کے پیسوں کی بربادی پر روک لگانے کے لئے اب جلد ہی قانون بھی بننا چاہیے۔ ممبر اسمبلی، ممبرپارلیمنٹ اور وزراء عوام کے پیسے سے ترقیاتی کام کراتے ہیں، جو ان کی آئینی جواب دہی بھی ہے۔ جو لیڈرسنگ بنیاد اور اخبارات میں اپنا نام آگے بڑھاتے ہیں، وہ لوگ منصوبوں میں تاخیر یا بدعنوانی کے معاملات کی جوابدہی بھی کیوں نہیں لیتے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔