اگر ای وی ایم بالکل محفوظ ہے تو سوال کیوں اُٹھ رہے ہیں؟
سنیل ارورا کی وضاحت کہ ’ای وی ایم بالکل محفوظ ہے‘ یہ سوال اٹھنا لازمی ہو جاتا ہے کہ اگر EVM میں سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر سوال کیوں اٹھائے جا رہے ہیں اور ای وی ایم سے ہی ووٹنگ کرانے پر اتنا اصرار کیوں ہے؟
اعظم شہاب
مہاراشٹر و ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی الیکشن کمشنر سنیل ارورا نے ایک بار پھر ای وی ایم پر اٹھنے والے اعتراض پرکہا کہ ای وی ایم نے کبھی غلط ووٹنگ ریکارڈ نہیں کی اور یہ وہ بالکل محفوظ ہے۔ ہوا یوں کہ پریس کانفرنس کے دوران کسی نے ان سے ای وی ایم پر سوال کرلیا تھا، جس پر وہ اپنا وہی پرانا موقف دہرانے لگے جو وہ پارلیمانی الیکشن کے بعد سے دہراتے آ رہے ہیں۔ سنیل ارورا کی اس وضاحت پر ایک بار پھر یہ سوال اٹھنا لازمی ہو جاتا ہے کہ اگر ای وی ایم میں سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر اس پر اعتراض کیوں اٹھائے جا رہے ہیں اور ای وی ایم سے ہی ووٹنگ کرانے پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ جبکہ ملک کی بیشتر اپوزیشن پارٹیاں بیلیٹ پیپر سے انتخابات کرانے کا مطالبہ باربار کر رہی ہیں، یہاں تک کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک میں پہنچ چکا ہے۔
پارلیمانی الیکشن کے بعد جب 372 انتخابی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹ اور شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر تفاوت کا معاملہ سامنے آیا تھا تو ای وی ایم پر اعتراض نہایت شدت سے اٹھا تھا۔ جس پر ہمارا قومی میڈیا بالکل اسی طرح خاموشی رہا جس طرح موب لنچنگ پر رہتا ہے، لیکن سوشل میڈیا ای وی ایم کی گڑبڑی اور چھیڑچھاڑ کے ثبوت وشواہد سے بھرے رہے جو اس بات کی چغلی کھاتے کہ بی جے پی کو جو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے، اس میں کہیں نہ کہیں کوئی بڑا جھول ضرور ہے۔ ای وی ایم پر ہمارا اعتماد پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی اٹھا گیا تھا اور رہا سہا کسر اس وقت پورا ہوگیا جب ای وی ایم کے خلاف پورے ملک، خاص طور سے مہاراشٹر میں تحریک چھیڑنے والے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کو تحریک شروع کرنے کی تاریخ کا اعلان کرتے ہی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ایک ایسے معاملے میں تفتیش کے لئے بلاوا آگیا جس سے وہ کئی سال قبل علیحدہ ہوچکے تھے۔ اس بلاوے کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف وہ تحریک شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوگئی بلکہ آج راج ٹھاکرے اس طرح گوشہ نشین ہوگئے ہیں کہ نیوزچینل والوں کو ان کے بارے میں یہ ہیڈلائن لگانی پڑ رہی ہے کہ ’راج ٹھاکرے کہاں غائب ہوگئے‘۔
راج ٹھاکرے سے متعلق بازار میں ایک غیرمصدقہ خبر یہ گردش کرتی ہے کہ حکومت کی جانب سے انہیں خاموش رہنے کی تاکید کی گئی ہے دیگرصورت میں انہیں ای ڈی کی جانب سے دوبارہ تفتیش کے لئے نوٹس آسکتا ہے اور پھر80لاکھ روپئے ان کے گھر سے برآمد ہونے کا اعلان کر کے انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ انہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ کانگریس واین سی پی سے ہرگز انتخابی مفاہمت نہ کریں، تنہا الیکشن لڑیں تاکہ ووٹوں کا بھرپور بٹوارہ ہو اور اپوزیشن کے تمام ممبرانِ اسمبلی کو پچاس ساٹھ تک سمیٹا جاسکے۔ یہ دنوں خبریں کس حد تک صحیح ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ انہیں ای وی ایم کے خلاف تحریک چھیڑنے سے باز رکھنے کے لئے ای ڈی کا سہارا لیا گیا تھا جس کے بارے میں کانگریس واین سی پی کے لیڈران نے اس وقت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس کے علاوہ 9اگست کو راج ٹھاکرے نے ممبئی میں اپنے پارٹی کے عہدیداران کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ بی جے پی کے ایک وزیر نے ہمارے ایک عہدیدار سے کہا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں چاہے تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد کیوں نہ ہوجائیں، جیتے گی بی جے پی ہی، کیونکہ ہمارے پاس ای وی ایم ہے جو اپوزیشن کے پاس نہیں ہے۔ اسی میٹنگ میں انہوں نے ای وی ایم کے خلاف تحریک چھیڑنے کی تاریخ کا بھی اعلان کیا تھا اور ایک فارم پیش کیا تھا جسے پارٹی کے کارکنان لوگوں سے پُر کر واکر الیکشن کمیشن کو دینے والے تھے۔ ان کے اس اعلان کے بعد ہی انہیں ای ڈی کا نوٹس ملا تھا۔ تو پھر اس نوٹس کو یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ راج ٹھاکرے کو ای وی ایم کے خلاف تحریک نہ چلانے کے لئے دیا گیا تھا؟
ای وی ایم کے بارے میں الیکشن کمیشن نے ایک بار خود یہ اعتراف کیا تھا کہ اس میں لگی ہوئی دیگر چپس میں سے ایک چپس کاونٹگ کے وقت تک ایکٹیو رہتی ہے۔ تو پھر کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے ایک چپ کے ذریعے اس سے چھیڑچھاڑ کی جاسکتی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پارلیمانی الیکشن میں 372 سیٹوں پر ووٹوں کا یہ تفاوت کیوں ہوتا جبکہ ایک ایک ووٹ کئی تفتیشی مراحل سے گزرنے کے بعد ای وی ایم میں محفوظ ہوتا ہے؟ اس کے علاوہ پارلیمانی الیکشن کے فوری بعد کرناٹک اور راجستھان میں ہونے والے کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح ہزیمت کا سامنا کیوں کرنا پڑا تھا، کیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ الیکشن بیلیٹ پیٹر سے کرائے گئے تھے؟ مہاراشٹر، ہریانہ و دیگر ریاستوں کے ضمنی سیٹوں پر 21 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں چاہے جس قدر شفافیت اور غیرجانبداری کا دعویٰ کیا جائے، اس خدشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس الیکشن میں بھی ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ ممکن ہے۔ ایسی صورت میں تو یہ خدشہ مزید قوی ہوجاتا ہے جب بات مہاراشٹر کی ہو جہاں ملک کی معاشی راجدھانی واقع ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Sep 2019, 9:10 PM