ہریانہ میں کیوں ہونے والی ہے اقتدار کی تبدیلی؟... یوگیندر یادو
انتخابی تشہیر کے آخری دور میں سب کی توجہ امیدواروں کی انفرادی مقبولیت، مقامی ذات-پات والے حالات اور انتخابی تشہیر کے داؤ پیچ پر ہے، حالانکہ اس سے ممکنہ نتائج نہیں بدلنے والے۔
ہریانہ اسمبلی انتخاب کے تین ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ پہلا: برسراقتدار بی جے پی کے خلاف ہوا چلے گی اور کانگریس واضح اکثریت سے حکومت بنائے گی۔ دوسرا: یہ ہوا انتخابی آندھی کی شکل لے گی اور کانگریس کو زبردست اکثریت ملے گی۔ تیسرا: کانگریس کے حق میں سنامی آ جائے اور بی جے پی سمیت باقی پارٹی چند ایک سیٹوں پر ہی سمٹ جائے۔
یہ کوئی انتخابی پیشین گوئی نہیں ہے۔ ان تینوں امکانات میں سے کون سی سچ ہوگی اور کس پارٹی کو کتنی سیٹیں ملیں گی اس کا جائزہ لینے کی یہاں کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ یہ تو محض سیاست کی جنرل نالج ہے جو ریاست میں ہر شخص جانتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ انتخاب بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کی طرح اس بار ابھے چوٹالا کی انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی)، دُشینت چوٹالا کی جے جے پی، بی ایس پی یا عآپ اور آزاد امیدواروں کا بڑا کردار نہیں رہے گا۔ یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ اس سیدھے مقابلے میں کانگریس کو واضح سبقت ہے۔ مذکورہ بالا تینوں امکانات میں جو بھی سچ ہو، یہ واضح ہے کہ تینوں حالت میں حکومت کانگریس کی ہی بنتی نظر آتی ہے۔ ہریانہ کا موجودہ اسمبلی انتخاب ان انتخابات کے زمرہ میں آتا ہے جن کا فیصلہ انتخاب کا اعلان ہونے سے پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ کس پارٹی نے کون سا امیدوار کھڑا کیا، کس پارٹی نے اپنے منشور میں کیا کہا اور انتخابی تشہیر میں کیا پالیسی اختیار کی، اس سے سیٹوں کی تعداد کچھ حد تک اوپر نیچے ہو سکتی ہے، لیکن ان سے انتخاب کا بنیادی نتیجہ پلٹنے کا امکان بہت کم ہی نظر آتا ہے۔
دراصل اس انتخاب کا بنیادی رجحان کوئی ایک سال یا اس سے بھی پہلے ہی طے ہو چکا تھا جب اقتدار اور سماج کے درمیان ایک فاصلہ بن چکا تھا۔ سچ کہیں تو عوام کی حکومت سے فاصلہ کی شروعات بی جے پی کی دوسری حکومت بنانے کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ بی جے پی مخالف ووٹ کو پولرائز کرنے والی دُشینت چوٹالہ کی جے جے پی نے جس طرح پانسہ پلٹ کر بی جے پی کی حکومت بنوائی، اسی سے عوام کے من میں تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ اقتدار اور سماج کو جوڑنے والا دھاگہ کسان تحریک کے دوران ٹوٹ گیا۔ ہریانہ کی بی جے پی حکومت نے کسان تحریک کو روکنے، اس کو ختم کرنے اور پھر اس کے خلاف منفی تشہیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسری طرف زراعت کرنے والا طبقہ پوری طرح سے کسان تحریک کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ آخر میں جب مرکزی حکومت کو کسانوں کے سامنے جھکنا پڑا تو ہریانہ حکومت کی عزت بھی گئی اور وقار بھی مجروح ہوتا چلا گیا۔ جنسی استحصال کے خلاف خاتون پہلوانوں کی جدوجہد نے حکومت کی بچی کھچی عزت بھی ختم کر دی تھی۔ ریاست میں وسیع بے روزگاری تو تھی ہی، اس پر اگنی ویر منصوبہ نے دیہی نوجوانوں کے خوابوں پر پانی پھیر دیا۔ یعنی کسان، جوان اور پہلوان نے مل کر انتخاب شروع ہونے سے پہلے ہی بی جے پی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اس سال ہوئے لوک سبھا انتخاب میں ہی ریاست کی بدلی ہوئی سیاسی صورت حال کی جھلک دیکھنے کو مل گئی تھی۔ 5 سال پہلے ہوئے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی کانگریس پر 30 فیصد کی سبقت تھی، جو اس انتخاب میں صاف ہو گئی۔ دونوں پارٹیوں کو 5-5 سیٹیں ملیں اور کانگریس-عآپ اتحاد کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ حاصل ہوا۔ پھر بھی لوک سبھا انتخاب میں قومی ایجنڈا اور وزیر اعظم کی مقبولیت کے سہارے بی جے پی بری شکست سے بچ گئی۔ لیکن اسمبلی انتخاب میں ریاستی حکومت کی کارگزار سے بچنے کی کوئی ترکیب نہیں ہے۔ منوہر لال کھٹر کی قیادت میں بی جے پی کی پہلی حکومت نے پھر بھی بدعنوانی کم کرنے اور ملازمت کو اہلیت کے مطابق دینے کے معاملے میں کچھ پہچان بنائی تھی، لیکن دُشینت چوٹالہ کی مدد سے بنی دوسری حکومت نے بدعنوانی، تکبر اور بے حسی والی شبیہ حاصل کی۔ بالآخر بی جے پی نے منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلیٰ عہدہ سے دستبردار کر دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے ضرور تیزی دکھائی اور کئی مقبول اعلانات بھی کیے، لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ عوام اپنا ذہن تیار کر چکی تھی۔
اس پس منظر میں اپنی کمزوری کو سمجھتے ہوئے بی جے پی قیادت نے ٹکٹ کی تقسیم میں سختی اور اسٹریٹجی سے کام لیا ہے۔ لیکن اس سے پارٹی میں بکھراؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ کانگریس کی ٹکٹ تقسیم میں بھی خوب رسہ کشی ہوئی اور پارٹی کی داخلی گروپ بندی سامنے آئی۔ لیکن اس بار زمین پر اس سے کوئی بڑا فرق دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنے منشور جاری کر دیے ہیں۔ بی جے پی کو بھی بے روزگاری، اگنی ویر اور کسانوں کو ایم ایس پی جیسے ایشوز کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ لیکن زمین پر کسی بھی انتخابی منشور کا زیادہ تذکرہ سنائی نہیں دیتا۔ آخر میں بی جے پی کے پاس ہندو-مسلمان یا پھر پینتیس-ایک (یعنی جاٹ اور غیر جاٹ کا نسلی پولرائزیشن) کی چال بچی ہے۔ اس کا کچھ اثر چنندہ سیٹوں پر پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس بار یہ پولرائزیشن پوری ریاست کے فیصلے کو متاثر کرتا ہوا دکھائی نہیں پڑ رہا۔
انتخابی تشہیر کے آخری دور میں سب کی توجہ امیدواروں کی انفرادی مقبولیت، مقامی ذات-پات والے حالات اور انتخابی تشہیر کے داؤ پیچ پر ہے۔ اس سے مجموعی نتائج نہیں بدلنے والا، یعنی لگتا نہیں کہ اس کا سیٹوں کے نمبر پر اثر پڑے گا۔ آخری دور میں جو پارٹی آگے دکھائی دیتی ہے، اسے بھیڑ چال کے ووٹوں کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے۔ اگر بی جے پی جاٹ اور غیر جاٹ پولرائزیشن میں جزوی طور سے بھی کامیاب ہوتی ہے تو وہ کانگریس کو عام اکثریت پر روک سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ پالیسی کامیاب نہ ہو پائی اور آخری دنوں میں کانگریس سستی کا مظاہرہ نہ کرے تو اس ہوا کو آندھی یا سنامی میں بدل کر زبردست اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔