اقلیتوں کے لیے ہندوستان خطرناک کیوں؟... نواب علی اختر
اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی انصاف کو تحریر و تقریر کے بجائے زمینی حقیقت دے، وہ اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو نوجوانوں کے خواب مٹی میں مل جائیں گے۔
مئی 2019 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات اور پھر دوبارہ نریندر مودی کی قیادت میں منظرعام پر آنے والی بی جے پی حکومت کے حوالے سے زیادہ تر لبرل صحافیوں، روشن خیال دانشوران اور کمیونلزم کے خلاف لڑائی لڑنے والے گروپ کا کہنا تھا کہ ملک کا 185 ملین مسلمان ڈرا ہوا ہے، وہ خوف اور اضطراب کا شکار ہے حالانکہ اس وقت اسی گروپ کے ایک دھڑے کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی کی بڑی جیت کا مطلب ڈرجانا ہے تو صرف مسلمان ہی کیوں ڈریں؟۔ دراصل یہ ایک تصور ہے کہ ساری مصیبتوں کا پہاڑ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے گا اگر ایسا ہے تو مختلف شکل اور وقت میں دیرسویر ملک کا ایک ایک شہری اس کی زد میں آئے گا اور اس کا راست نقصان ملک کو ہی پہنچے گا۔ اس لئے اگر ڈرنے کی بات ہے تو ملک کا ہر وہ شہری جو ہندوستان کے آئین میں یقین رکھتا ہے، وطن سے محبت کرتا ہے، اسے ڈر جانا چاہیے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ملک میں جب تک ایک بھی سیکولر آدمی زندہ رہے گا، ایسا کبھی نہیں ہو پائے گا خواہ کتنے ہی ’راشٹر بھکت‘ ایڑی چوٹی کا زور لگالیں۔
یہ بھی پڑھیں : سنبھل جاؤ مسلمانوں، مصیبت!... نواب علی اختر
یہ بھگوا بریگیڈ کی خام خیالی ہی کہی جائے گی کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے سیکولر ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بناکر ہر وہ فعل انجام دیا جائے جو مہذب سماج میں پھوٹی آنکھ بھی دیکھا جانا پسند نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندوں کی ٹولی کو اب ان تمام سازشوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے جو ہندوستانی سماج کے خلاف ہیں۔ ایسی حرکتوں سے تشدد اور منافرت کا ماحول ضرور پیدا ہوتا ہے مگر وہ بھی چند روز میں ہی سیکولرعوام کے سامنے دم توڑ دیتا ہے۔ یہ تمام حالات چند سالوں میں ہی رونما ہوئے ہیں جس کے لیے ہم بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ مثال مشہور ہے ’کتوں کی بھوں بھوں پر رد عمل آبیل مجھے مار‘ کے مترادف ہے۔ باوجود اس کے ہم سماج سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر منفی عمل پر جذبات میں آکر بغیر سوچھے سمجھے رد عمل کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور اسی کو شرپسند اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ سبھی لوگ حکومت کے زر خرید غلام ہوتے ہیں جن کا کام سماج میں نفرت کی چنگاری بھڑکانا ہوتا ہے، آگ خود بخود لگ جائے گی۔
یہ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کے دور میں ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر پرائیویٹ اداروں اور تنظیموں تک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک عام بات ہوگئی ہے۔ جب کہ ہرحکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سماجی انصاف کا دائرہ وسیع کرے جس میں ہر طبقہ و قوم کی خوشحالی شامل ہے اور یہی ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔ ”سماجی انصاف“ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہر طبقے کے لیے سرکاری ملازمتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی سماج میں برابری کے درجے تک محیط ہے۔ اس میں تعلیم بھی شامل ہے اور روزگار بھی، فرد /قوم کی سلامتی کو بھی اپنے دائرے میں لیے ہے اور علاج و معالجہ کی یقین دہانی بھی، لیکن اس کا ایک سب سے اہم سرا حکومت سے متعلق ہے وہ ہے اس کا فریضہ۔ سماجی انصاف اسی وقت یقینی ہوگا جب حکومت بغیر کسی جانبداری کے اپنا فرض منصبی ادا کرے گی۔
حال ہی میں ”ساؤتھ ایشیاء اسٹیٹ آف مائنارٹیز رپورٹ 2020“ جاری ہوئی ہے جس میں سری لنکا، افغانستان، پاکستان، بھوٹان اور ہندوستان میں رہنے والی اقلیتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی رپورٹ میں جہاں ہندو، سکھ، بودھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کے مسائل اور ان دشواریوں کو دکھا کر اس کے اسباب و عوامل بتائے گئے ہیں تاکہ وہاں کی حکومتیں ان کے حقوق انسانی ادا کریں، وہیں ہندوستان سے متعلق رپورٹ میں اقلیتوں، مسلم، عیسائی اور بودھوں کے مسائل اور ان کے اسباب پر روشنی ڈال کر یہاں کی حکو مت کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی حکومت میں جنوبی ایشیاء میں ہندوستان مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک اور پر تشدد مقام واقع ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کسانوں کے مفادات ہر قیمت پر محفوظ رہیں گے: بھوپیش بھگیل
اگر کوئی عالمی ادارہ اس طرح کی رپورٹ تیار کرکے شائع کرتا ہے تو وہ یوں ہی نہیں ہو سکتا اس کو اس کے اسباب و عوامل پر بھی روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی اے اے اور این آ ر سی کے بعد جس طرح سے یہاں کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے وہ نہایت خطرناک رہا ہے۔ جس نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی طرح سے موب لنچنگ نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا ہے جس کے لئے حکومت ذمہ دار ہے۔ یہ رپورٹ پورے سال ہونے والے واقعات، ان کے اسباب اور نتائج پر محیط ہے۔ رپورٹ صاف طور پر کہتی ہے 2014 کے بعد سے مذہبی اقلیتوں /جماعتوں خصوصاً مسلمانوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے خلاف منافرتی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کنورژن لاء ”مذہب کی تبدیلی“ کو بھی رپورٹ میں موضوع بنایا گیا ہے کہ کس طرح سے اس کا مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف منفی استعمال کیا جا رہا ہے۔
بجنور، مرادآباد، شاہجہاںپور اور دیگرعلاقوں میں قانون کا بیجا استعمال بتاتا ہے کہ ملک میں سماجی انصاف نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کی جگہ اس ہندوتوا نے لے لی ہے جس کے لیے بی جے پی سوتے جاگتے ’جاپ‘ کرتی ہے۔ سماجی انصاف زمینی حقیقت کے بجائے اب سیاست دانوں کی تقریروں میں ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ سب کچھ عیاں ہے۔ رپورٹ میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ سماجی نا برابری کی وضاحت کے لئے اعداد و شمار بھی دیئے گئے ہیں۔ جس کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے جو مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں محض 4.9 فیصد کی حصہ داری ہے، بیورو کریسی میں 3.7 فیصد ہیں، 28 ریاستوں میں نہ تو کوئی مسلم چیف سکریٹری ہے نہ پولیس کا سربراہ ہے۔ سپریم کورٹ میں 33 ججوں میں محض ایک مسلم جج ہے۔ اسی طرح سے حکومت ہند کے مختلف بورڈوں (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، منجمنٹ، آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ وغیرہ) کے ممبر میں بھی کوئی مسلم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : مسلمان آخر نئے سال کا جشن منائے تو منائے کیسے!... ظفر آغا
رپورٹ میں مکمل تفصیلات کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا گیا ہے اور پھر یہ رپورٹ لکھنے والی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہندوستان اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے خطرناک جگہ بن چکا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی انصاف کو تحریر و تقریر کے بجائے زمینی حقیقت دے، وہ اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو نوجوانوں کے خواب مٹی میں مل جائیں گے جس میں صرف اقلیت ہی نہیں اکثریتی طبقے کے بھی نوجوان ہوں گے۔ اس کا صرف یہی نقصان نہیں ہوگا پانچ ٹریلین کی معیشت کے ساتھ ہی ”وشو گرو“کا خواب بھی چکنا چور ہوگا کیونکہ جہاں اقلیتیں محفوظ نہ ہوں، خوف وہراس کا ماحول، وجود و عدم کے مابین کشمکش ہو وہاں امن و امان کا بسیرا نہیں ہوسکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔