ہار سے خوفزدہ مودی: بادل کے پیر چھو کر ساتھیوں کو خوش کرنے کی کوشش
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آج تک کسی کے پیر نہیں چھوئے۔ لیکن جمعہ کو وارانسی میں اکالی دل کے بزرگ لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھو کر سب کو حیران کر دیا۔
وارانسی میں پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت جب وزیر اعظم نریندر مودی نے بزرگ اکالی دل لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھوئے تو انھوں نے ان لوگوں کو ضرور حیران کر دیا جو مانتے تھے کہ پورے ساڑھے چار سال تک مودی نے این ڈی اے کی معاون پارٹیوں کے ساتھ میٹنگ کرنے یا ان کے ساتھ کم از کم مشترکہ پروگرام بنانے کی کوئی زحمت تک نہیں اٹھائی۔ شیو سینا، رام ولاس پاسوان، اکالی دل اور باقی ساتھی پارٹیاں مودی کے تقریباً پورے دور میں خود کو نظر انداز کیے جانے کو لے کر بی جے پی ہی نہیں براہ راست پی ایم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کے رویے سے کافی ناراض تھے۔ شیو سینا نے تو اپنے جارحانہ انداز میں کئی بار مودی-شاہ پر سیدھا حملہ تک کیا۔
پنجاب میں واحد ساتھی پارٹی اکالی دل کے ساتھ بھی بی جے پی کے پانچ سال سے رشتے تلخ ہی رہے۔ 2017 کے شروع میں پنجاب اسمبلی انتخاب ہارنے کے بعد تو مودی اور امت شاہ نے اکالی دل کو کھلے عام نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ پنجاب بی جے پی کی رپورٹ بھی یہی تھی کہ بادل فیملی پر بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے ہی اس کے ہاتھوں سے اقتدار گیا۔ انتخاب میں شکست کے بعد اکالی دل بالکل الگ تھلگ پڑ گیا تھا۔
پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بادل کے پیر چھونے کے اس عمل سے مودی نے پنجاب میں بی جے پی-اکالی دل کیڈر میں عرصے سے جاری تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنٹر فار کمپریٹو پالیٹیکل تھیوری محکمہ کے پروفیسر کمل متر چنائے حیران ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مودی نے جمعہ کو وارانسی میں جس طرح اکالی دل لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھوئے اس کے ذریعہ مودی نے اس بات کا صاف اشارہ دے دیا کہ عام انتخاب کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کی بی جے پی کی حسرتیں پوری نہیں ہونے والی۔
میرٹھ یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر کے سی شرما محترم چنائے کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’23 مئی 2019 کو انتخابی نتائج آنے کے بعد مودی کے سامنے مرکز میں دوبارہ اقتدار بنانے کا ایک ہی متبادل بچا ہے کہ وہ بی جے پی کے تنہا اکثریت حاصل نہ کر پانے کی صورت میں این ڈی اےمیں شامل پارٹیوں کی جانب سے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کریں۔‘‘
یہ بات ظاہر ہے کہ شیوسینا سے ناراضگی تو مئی 2014 سے ہی شروع ہو گئی تھی جب اپنے سب سے اہم ساتھی شیو سینا کے اننت گیتے کو ہی کابینہ وزیر کا عہدہ دیا گیا۔ وہ بھی ایک غیر اہم محکمہ جس کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ شیو سینا کا لگاتار دباؤ یہ ہوتا تھا کہ اسے کم از کم ایک اور وزارت دی جائے جس سے ممبئی اور مہاراشٹر کے لوگوں کو سہولتیں دی جا سکیں۔
شیو سینا این ڈی اے میں شامل تنہا پارٹی ہے جس نے رافیل گھوٹالے میں ’چوکیدار چور ہے‘ کے کانگریس صدر راہل گاندھی کے نعرے کی حمایت کی ہے۔ 25 دسمبر 2018 کو مہاراشٹر کے سولا پور میں شیو سینا کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُدھو ٹھاکرے نے کہا کہ سولاپور اور کئی دیگر اضلاع میں کھیتی کے کیڑے کس طرح کسانوں کی فصل برباد کر رہے ہیں۔ اُدھو اس وقت اتنے پر ہی نہیں رکے، انھوں نے مرکزی و مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت، جس میں خود ان کی اپنی پارٹی بھی شامل ہے، پر خوب حملے کیے اور صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’چوکیدار چور ہے۔‘‘ شیو سینا نے پلوامہ حملے پر بھی مودی حکومت کی سرزنش کی تھی۔ پارٹی کے ترجمان ’سامنا‘ نے مودی کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایکشن کے لیے حکومت کو انتخابات کا انتظار ہے۔
لیکن کیا واقعی بی جے پی-شیو سینا میں نئے ماحول کا ’ہنی مون‘ کسی طویل مدتی پالیسی کا حصہ ہے؟ اس سوال پر مہاراشٹر کے اہم اخبار ’سکال‘ کے دہلی بیورو چیف اننت بگایتکر کہتے ہیں کہ ’’دراصل اپنا سیاسی وجود بچائے رکھنے کے لیے نہ تو بی جے پی کے پاس کوئی متبادل ہے اور نہ ہی شیو سینا کے پاس۔‘‘ بقول ان کے ’’یہ دوستی صرف لوک سبھا انتخاب تک ہے تاکہ سیٹوں پر سمجھوتے کے تحت ایک دوسرے کا ووٹ تقسیم ہونے سے روکیں اور وہ دونوں شراکت داروں کو منتقل بھی ہو سکیں۔‘‘
مہاراشٹر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ اتحاد بالکل باہری دکھاوے کے لیے ہے۔ زمینی سطح پر بی جے پی-شیو سینا کے موجودہ اراکین پارلیمنٹ و ٹکٹ حاصل کنندگان کا دباؤ دونوں ہی پارٹیوں پر تھا کہ کانگریس-این سی پی کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ہی پارٹیوں کو مل کر انتخاب لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM