کون بنے گا اگلا بی جے پی صدر؟... شرد گپتا

آخر کچھ تو وجہ ہوگی کہ الگ شبیہ والی بی جے پی اپنے قومی صدر کے انتخاب میں اس مرتبہ اتنا زیادہ وقت لگا رہی ہے۔

بی جے پی / علامتی تصویر
بی جے پی / علامتی تصویر
user

شرد گپتا

لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی کارکردگی اس کی امیدوں کے مطابق نہیں رہی جس کی وجہ سے غالباً وہ انتہائی مایوس ہے۔ یہ اعلان کہ ’بی جے پی کو اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں رہی اور وہ اس سے آگے نکل چکی ہے‘، سے بی جے پی صدر کے انتخاب کو لے کر آر ایس ایس سے الجھنے تک کا سفر کتنا سیاسی سبق لیے ہوئے ہوگا، یہ غیر مفتوح نظر آنے والی مودی-شاہ کی جوڑی اور ان کے ساتھیوں کے بجھے بجھے مزاج سے سمجھا جا سکتا ہے۔

بھولنا نہیں چاہیے کہ گزشتہ 10 سالوں میں نریندر مودی نے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ساتھ ایک بھی انفرادی میٹنگ نہیں کی۔ حالانکہ امت شاہ بی جے پی جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش کے ساتھ 12 اگست کو وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی رہائش پر آر ایس ایس جنرل سکریٹری دتاترے ہوسبلے اور جوائنٹ جنرل سکریٹری ارون کمار کے ساتھ پانچ گھنٹے طویل میٹنگ شامل تھے۔ یہ میٹنگ کیرالہ کے پلکڑ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان 31 اگست سے شروع ہونے والی تین رکنی کوآرڈنیشن میٹنگ سے قبل ہوئی ہے۔


بی جے پی کے قومی صدر کی شکل میں نڈا کی مدت کار جنوری میں ختم ہو گئی تھی، لیکن پارلیمانی انتخاب سے قبل انھیں چھ مہینے کی توسیع دی گئی۔ یہ مدت کار بھی 30 جون کو ختم ہو گئی۔ اب بھی اگر نئے صدر کو لے کر کوئی اشارہ نہیں ملا ہے تو وجہ یہ ہے کہ بی جے پی قیادت اس عہدہ کے لیے کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کر پایا ہے جو آر ایس ایس کو بھی بہ آسانی قبول ہو۔

چوہان تو پہلے ہی کنارے لگ گئے

آر ایس ایس مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو نڈا کا جانشیں بنانا چاہتا تھا۔ لیکن مودی نہیں چاہتے تھے کہ ایک اور مضبوط او بی سی لیڈر ااگے بڑھے اور ان کی مصیبت بن جائے۔ یہی وجہ تھی کہ چوہان کو پہلے ہی مرکزی کابینہ میں وزیر زراعت کی شکل میں شامل کر لیا گیا۔ اس درمیان بی جے پی نے تب تک کے لیے ایک کارگزار صدر کی تجویز رکھی جب تک دونوں تنظیم کُل مدتی صدر کے نام پر متفق نہیں ہو جاتے۔ بی جے پی قیادت کی فہرست میں جو نام سامنے آ رہے ہیں ان میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس، سابق مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، اتر پردیش کے تنظیمی سکریٹری سنیل بنسل اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ونود تاوڑے شامل ہیں۔


دلچسپ یہ ہے کہ فڑنویس آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کے شہر ناگپور سے آتے ہیں اور سنیل بنسل آر ایس ایس کے پرچارک رہے ہیں، اور بی جے پی میں کُل مدتی طور پر شامل ہونے سے قبل آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی میں تھے۔

تنظیمی سکریٹریز کو واپس بلانے کا منصوبہ

بی جے پی کے ذریعہ اگلے پارٹی صدر کے لیے امیدواروں کی شکل میں پیش کیے گئے کسی بھی نام سے آر ایس ایس خوش نہیں ہے۔ درحقیقت وہ اپنے سویم سیوکوں کو بی جے پی میں شامل کر لیے جانے سے اتنا مایوس ہے کہ اب ریاستوں کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر مقرر سبھی تنظیمی سکریٹریز (روایت کے مطابق بی جے پی میں یہ عہدہ آر ایس ایس کے لوگوں کے لیے محفوظ ہے) کو بھی واپس بلانا چاہتا ہے۔ یہ قدم بی جے پی لیڈروں کو پریشانی میں ڈالنے والا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے اور یہ آر ایس ایس کے ساتھ رشتے مزید بگاڑنے والا ثابت ہو سکتا ہے۔


کیرالہ اور کرناتک کے ریاستی تنظیمی سکریٹریز کو آر ایس ایس پہلے ہی واپس بلا چکا ہے۔ 11 سالوں سے بی جے پی کے ساتھ رہے کیرالہ کے تنظیمی سکریٹری کے ساتھ سبھاش کنّوتھ 20 جولائی کو عہدہ سے ہٹا دیے گئے اور ان کی جگہ ایم گنیشن کی تقرری ہو گئی۔ اس سے ایک ماہ پہلے جون میں کرناٹک کے تنظیمی سکریٹری جی وی راجیش کو بھی آر ایس ایس نے واپس بلا لیا تھا۔ موجودہ قومی تنظیمی سکریٹری بی ایل سنتوش کو بھی آر ایس ایس واپس بلا سکتا ہے کیونکہ ان کی بھی خواہش کرناٹک کا وزیر اعلیٰ بننے کی ہے۔

آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت کا ماننا ہے کہ دونوں تنظیموں کے درمیان کوآرڈنیشن بنانے کے لیے بی جے پی کے ساتھ لگائے گئے اس کے پرچارک بی جے پی کے تئیں زیادہ وفادار ہو جاتے ہیں۔ انھیں اقتدار کا چسکا تو لگ ہی گیا ہے، دولت کی لالچ بھی بڑھی ہے۔ نریندر مودی بھی 1980 کی دہائی کے آخر میں بی جے پی کے پرچارک ہی تھے، آر ایس ایس اب دوسرا مودی نہیں بنانا چاہتا۔


تاخیر کی اصل وجہ

اوپر دی گئی وجہ ہی اصل وجہ ہے کہ بی جے پی اپنا اگلا صدر طے نہیں کر پا رہی۔ حالانکہ اس کے ترجمان تاخیر پر بے معنی دلیل دیتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہماری پارٹی کے آئین میں قومی صدر کے انتخاب سے قبل کم از کم 60 فیصد ریاستی یونٹس کے تنظیمی انتخاب ضروری طور سے کرانے کا انتظام ہے۔ چونکہ ہم سب گزشتہ چھ مہینوں کے دوران لوک سبھا انتخابات میں مصروف رہے، اس لیے کئی ریاستوں میں انتخاب نہیں کرائے جا سکے۔‘‘

ابھی تک صرف 5-4 ریاستوں میں ہی تنظیمی انتخاب ہوئے ہیں۔ 60 فیصد ریاستوں کے ہدف کا مطلب اسے سال کے آخر تک ملتوی کرنا ہوگا، کیونکہ پارٹی جموں و کشمیر، ہریانہ، جھارکھنڈ اور سب سے اہم مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں مصروف رہنے والی ہے۔ پارٹی اس لیے بھی زیادہ فکر مند ہے کیونکہ وہ ان میں سے کہیں بھی جیت کے تئیں پُرامید نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارٹی کے روز مرہ کا کام دیکھنے کے لیے ایک کارگزار صدر بنانے پر غور کر رہی ہے۔


سب کچھ ویسا ہی

اس درمیان جے پی نڈا نے گزشتہ ہفتے 23 ریاستوں میں انچارج و معاون انچارج اور شمال مشرقی ریاستوں کے لیے کوآرڈنیٹر و جوائنٹ کوآرڈنیٹر مقرر کر اشارہ دیا کہ ان کی مدت کار 30 جون کو بھلے ختم ہو گئی، لیکن ان کے لیے سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔ بے شک وہ تب تک مودی-شاہ کی جوڑی کی طرف سے فیصلے لیتے رہیں گے جب تک ان کا کوئی جانشیں نہیں آ جاتا۔

اس سے قبل بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے پارٹی آئین کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے ’داخلی انتخاب‘ نہ کرانے اور نڈا کی مدت کار میں توسیع کو لے کر پارٹی کو عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی دی تھی۔ سوامی نے 6 فروری 2024 کو اس بارے میں الیکشن کمیشن کو بھی کلھا تھا۔ دو ہفتہ کے اندر ہی بی جے پی کے قومی سمیلن نے پارٹی آئین میں ترمیم کر دی جس کے ذریعہ پارلیمانی بورڈ کو ایمرجنسی حالت میں پارٹی صدر کے بارے میں فیصلہ لینے کا اختیار دیا گیا تھا اور جس میں مدت کار اور اس کی توسیع کا معاملہ بھی شامل تھا۔ اب پارلیمانی بورڈ کے پاس نڈا کو مزید ایک توسیع دینے کی طاقت ہے، حالانکہ یہ صرف بی جے پی کی اعلیٰ قیادت ہی جانتی ہے کہ رسمی طور سے اب تک ایسا کیا کیوں نہیں گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔