مسئلہ کشمیر کو عالمی رنگ کس نے دیا؟... سہیل انجم
پانچ اگست سے قبل تو کشمیر پر دنیا کے دیگر ملکوں کی جانب سے ایسے بیانات نہیں آئے تھے جیسے کہ اب آرہے ہیں۔ تو کیا حکومت اس الزام سے خود کو بچا سکے گی کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔
سہیل انجم
اب یہ سوال زیادہ شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاملہ ہے یا پھر بین الاقوامی معاملہ ہے۔ ایسا سوال پوچھنے والے ہندوستان میں بہت ہیں جن میں سیاست داں بھی ہیں، صحافی بھی، دانشور بھی اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن بھی۔ لیکن جب بھی ایسا کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو حکومت یہی کہتی ہے کہ یہ عالمی مسئلہ نہیں ہے۔
جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر بات ہوتی ہے تو حکومت کہتی ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہندوستان نے اس معاملے پر جس طرح سفارتی کوششیں کی ہیں اس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ملک دفعہ 370 کے خاتمے کو ہندوستان کا داخلی معاملہ مانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے اپنے آئین کے دائرے میں رہ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔
لیکن جس طرح پہلے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں اور پھر بعد میں بھی انھوں نے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس کے موقع پر بھی ثالثی کی پیشکش دوہرائی اور پھر دوسرے کئی واقعات پیش آئے اس کے پیش نظر مذکورہ سوال زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔
ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے ان سے ثالثی کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن ہندوستان نے فوری طور پر اس کی سختی سے تردید کی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ثالثی کی پیشکش کی لیکن انھوں نے پھر یہ نہیں کہا کہ مودی نے ان سے اپیل کی ہے۔ بلکہ انھوں نے از خود ایسی پیشکش کی۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی پیشکش کے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ 370 کے خاتمے کا فیصلہ کیا تاکہ اس مسئلے کو مکمل طور پر ایک داخلی مسئلہ بنایا جاسکے۔ حالانکہ وہ اسے داخلی مسئلہ تو نہیں بنا سکے البتہ ایک طرح سے یہ ایک عالمی مسئلہ ضرور بن گیا۔ کیونکہ حکومت کے اس قدم کے بعد دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر پر جتنی گفتگو ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
در اصل حکومت نے مذکورہ دفعہ کے خاتمے کے بعد جس طرح وہاں مختلف قسم کی پابندیاں عاید کیں جن میں سے کچھ اب بھی جاری ہیں، اس کے پیش نظر یہ بات اٹھنے لگی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایک بار پرکاش جاوڈیکر نے جو کہ اس وقت مرکزی وزیر ہیں، اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے بات نہ کر سکے اور اپنی بات کسی سے کہہ نہ سکے۔
لیکن اب جبکہ کشمیر میں مواصلات پر اور بالخصوص انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائیل پر اب بھی پابندی ہے اس کے پیش نظر انھیں اب اپنی یہ بات پتہ نہیں یاد آرہی ہے یا نہیں، لیکن ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ اب انھی کی حکومت کشمیریوں پر ”سب سے بڑا ظلم“ کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے وہاں کی معیشت کو جو شدید نقصان پہنچا ہے اور کشمیر دسیوں سال بلکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سیکڑوں سال پیچھے ہو گیا ہے اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔
بات چل رہی تھی کشمیر مسئلے کے بین الاقوامی رنگ کی۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے اسے عالمی فورموں پر خوب اچھالا۔ چین نے اس کا ساتھ دیا۔ اس کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بند کمرے میں اس پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد وزیر اعظم مودی نے ہاوڈی مودی پروگرام میں اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں انھوں نے اس معاملے کو تو نہیں اٹھایا لیکن عمران خان نے اٹھایا اور اپنی تقریر کا ایک بڑا حصہ کشمیر پر فوکس کر دیا۔
عمران کے علاوہ ترکی اور ملیشیا کے سربراہوں نے بھی کشمیر کا معاملہ اٹھایا۔ ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”ہندوستان نے کشمیر پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا ہے“۔ بعد میں ہندوستان نے اس بیان کی مذمت کی اور ان سے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی۔ ہندوستان ملیشیا سے پام آئیل کا بہت بڑا درآمد کار ہے۔ یہاں کے تاجروں کی ایک تنظیم نے پام آئیل درآمد نہ کرنے کا بیان دیا۔ جس پر مہاتیر محمد نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر گفتگو کریں گے۔ لیکن انھوں نے اپنے بیان سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا۔
ابھی اس مسئلے پر گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ اسی درمیان یوروپی یونین کے ممبران پارلیمنٹ کا ایک 30 رکنی وفد ہندوستان آگیا۔ بلکہ اسے ایک نجی تنظیم کی جانب سے مدعو کیا گیا۔ اس وفد سے وزیر اعظم اور قومی سلامتی کے مشیر نے ملاقات کی اور مشیر نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ ان کے جموں و کشمیر کے دورے سے قبل ان کو کشمیر کے بارے میں بتایا گیا۔ جس وفد نے دورہ کیا اس میں 23 ارکان شامل تھے۔ یوروپی یونین کے ایک اور ممبر آف پارلیمنٹ جانا چاہتے تھے۔ لیکن انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں سے ملیں گے اور جو دیکھیں گے وہی کہیں گے۔ اس کے بعد ان کا نام وفد سے نکال دیا گیا۔
مذکورہ وفد میں جو لوگ شامل رہے ہیں وہ سب انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ان کے نظریات اور بی جے پی و آر ایس ایس کے نظریات میں بہت حد تک یکسانیت ہے۔ اس وفد کے کسی بھی رکن نے اپنی مرضی سے عوام سے ملنے پر اصرار نہیں کیا۔ حکومت نے جہاں چاہا وہاں ان کو لے جایا گیا۔ ان لوگوں کی جانب سے ایسا کوئی بیان بھی نہیں آیا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وفد نے آزادانہ طور پر دورہ کیا ہے۔
اس وفد کے دورے پر یہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے سخت اعتراض کیا اور بالخصوص کانگریس کے رہنماؤں نے اسے ہندوستانی پارلیمنٹ کی بے عزتی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے ارکان پارلیمنٹ کشمیر جانا چاہتے ہیں تو انھیں نہیں جانے دیا جا رہا ہے اور غیر ملکی ارکان پارلیمنٹ کو لے جایا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہو چکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا تو اس پر کافی لے دے ہوگی۔
ان تمام واقعات کی روشنی میں بہت سے لوگ حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب مسئلہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے تو پھر اسے بین الاقوامی کیوں بنایا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پانچ اگست سے قبل تو کشمیر پر دنیا کے دیگر ملکوں کی جانب سے ایسے بیانات نہیں آئے تھے جیسے کہ اب آرہے ہیں۔ تو کیا حکومت اس الزام سے خود کو بچا سکے گی کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM