جب پھلتی پھولتی معیشت پر بغیر سوچے سمجھے اچانک کر دیا گیا حملہ... آکار پٹیل
مرکز میں برسراقتدار نریندر مودی حکومت کے 9 سال پورے ہونے پر آکار پٹیل کے ذریعہ کیا گیا ’مودی کال‘ کا دلچسپ تجزیہ۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) چیف کرسٹین لیگارڈ نے اپریل 2016 میں کہا تھا ’’ہندوستان عالمی معیشت کا ایک چمکتا مقام بنا ہوا ہے۔‘‘ چند ماہ کے اندر ہی نریندر مودی نے اس حالت کو الٹا کر دیا۔ نوٹ بندی کی شکل میں ان کے پہلے ’ماسٹر اسٹروک‘ سے ہی ہندوستانی معیشت تباہ ہو گئی اور لاکھوں لاکھ لوگ مشکل میں آ گئے۔
نوٹ بندی کا نظریہ مہاراشٹر کے قصبہ لاتور کے میکانیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما کرنے والے شخص کا تھا۔ اس کا نام ہے انل بوکل۔ انل ’ارتھ کرانتی‘ نام کا ادارہ چلاتے ہیں اور خود کو معاشی اصول کار بتاتے ہیں۔ ان کی سوچ تھی: ہندوستان جیسے ملک میں جہاں 70 فیصد آبادی محض 150 روپے روزانہ پر گزارا کرتی ہے، بھلا 100 روپے سے زیادہ کے نوٹوں کی کیا ضرورت ہے؟ انھوں نے مودی کے ذریعہ ہندوستان کی 86 فیصد کرنسی کو ایک جھٹکے سے ختم کرنے کے کچھ دنوں بعد ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کیسے وزیر اعظم کو یہ خیال آیا۔
جولائی 2013 میں مودی کے بی جے پی کے وزیر اعظم عہدہ کا امیدوار بنائے جانے کے فوراً بعد بوکل اپنے ساتھیوں کے ساتھ احمد آباد گئے اور ’اَرتھ کرانتی‘ کی تجویز کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دینے کے لیے وقت مانگا۔ مودی نے بوکل کو 10 منٹ کا وقت دیا۔ بوکل کہتے ہیں ’’جب میں نے اپنی بات پوری کی تب مجھے احساس ہوا کہ انھوں نے 90 منٹ تک میری بات سنی تھی۔ میرے پریزنٹیشن کے بعد انھوں نے کچھ نہیں کہا۔‘‘ اس میں حیرانی کی بات نہیں۔ اس نظریہ نے مودی کو متاثر کیا ہوگا کہ وہ ایک آسان، جادوئی اور تبدیلی والا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
اَرتھ کرانتی کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ اس میٹنگ میں مودی کو نوٹ بندی کے جو فائدے بتائے گئے تھے، ان میں شامل تھے: ’دہشت گردی اور ملک مخالف سرگرمیوں کو قابو کیا جا سکے گا، ٹیکس نہیں دینے کی روش کم ہو سکے گی، بدعنوانی کو کم کیا جا سکے گا اور روزگار میں ضروری اضافہ ہوگا۔‘ یہ ساری باتیں بھلا کسے نہیں لبھاتیں؟ لیکن ان میں سے کسی کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ نوٹ بندی کیسے نافذ کیا جائے اور اس کا فائدہ کیسے ملے گا؟ نوٹ بندی کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں نہ کوئی حوالہ اور نہ تجزیہ۔
اس کے ساتھ ہی اَرتھ کرانتی نے ٹیکس کے پورے نظام کو ختم کر کے صرف ٹرانزیکشن ٹیکس لگانے اور نقد لین دین کی حد 2000 کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ انل بوکل کا نظریہ ایکدم آسان اور نافذ کرنے میں سہل نظر آئے اور مودی کے لیے یہ بالکل مفید تھا۔ انھوں نے انل بوکل کی تجویز کے سب سے ڈرامائی عنصر (نوٹ بندی) کو منتخب کیا اور اسے آگے بڑھا دیا۔
8 نومبر 2016 کو ملک کے نام اپنے خطاب میں اس کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہندوستان کے مسائل بدعنوانی، کالا دھن اور دہشت گردی ہیں اور ان کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے اور وہ اٹھائیں گے۔ مودی نے اعتراف کیا کہ اس سے کچھ دقت ہوگی لیکن یہ بھی کہا کہ اس سے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ عام لوگ ملک کے لیے تھوڑی تکلیف اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک غریب بیوہ کے ذریعہ ایل پی جی سبسیڈی چھوڑنے، ایک سبکدوش اسکول ٹیچر کے ذریعہ اپنی پنشن سے کچھ پیسہ ’سوچھ بھارت‘ کو دینے، ایک قبائلی خاتون کے ذریعہ بیت الخلاء بنانے کے لیے اپنی بکری کو فروخت کر دینے اور ایک فوجی کے ذریعہ اپنے گاؤں کو صاف بنانے کے لیے پیسہ دینے کی مثال پیش کی۔
مودی نے کہا کہ بدعنوانی، کالا دھن، جعلی نوٹ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لوگوں کو ’کچھ ہی دنوں کے لیے تھوڑی سی دقتیں‘ برداشت کرنی ہوں گی۔ ساتھ ہی کہا کہ لوگوں کو دقت کم از کم ہو، اس کے لیے وہ 31 دسمبر تک اپنے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بینک میں جمع کر سکتے ہیں اور جو لوگ اس وقت تک بھی بینک میں نوٹ جمع نہیں کر سکیں، وہ 31 مارچ 2017 تک نوٹ آر بی آئی کی شاخوں میں جمع کر سکیں گے۔ لوگ کچھ وقت کے لیے ایک دن میں 10 ہزار اور ایک ہفتے میں 20 ہزار روپے نکال سکتے تھے۔
لیکن حیرانی کی بات ہے کہ مودی نے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹ لائے جانے کا بھی اعلان کیا۔ اثردار طریقے سے ہندوستان نے اپنے 1000 روپے کے نوٹ کو 2000 روپے کے نوٹ سے بدل دیا تھا۔ 500 روپے سے چار نوٹوں میں رکھا کالا دھن اب 2000 روپے کے ایک نوٹ کی شکل میں رکھا جا سکتا تھا۔ مودی کی نوٹ بندی کی کوشش میں بوکل منصوبہ کی سبھی خوبی تھی، سوائے اس کے کہ بوکل کے منصوبہ میں بڑے قدر والے نوٹ نہیں تھے جبکہ اس معاملے میں ایک بڑا نوٹ ہٹا کر دوسرا بڑا نوٹ لے آ گیا تھا۔
کسی بھی ملک نے اپنی کرنسی کو ختم کر کے بدعنوانی کا مقابلہ نہیں کیا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ کامیاب نہیں ہوا۔ 2015 کے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں ہندوستان 76ویں مقام پر تھا۔ 2016 میں ہندوستان اس انڈیکس میں گر کر 79ویں مقام پر آ گیا۔ 2019 میں اور نیچے گر کر 80ویں مقام پر آ گیا۔ نوٹ بندی کے کچھ ماہ بعد ہی چلن میں مجموعی کرنسی 2016 کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ سسٹم میں زیادہ نقدی تھی اور لین دین میں نقدی کو کم کرنے کی دلیل بھی بے کار ثابت ہو گئی۔ جیسا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے، دیگر دلیلیں بھی جلد ہی منہدم ہو گئیں...۔
مودی کو خصوصی طور سے آر بی آئی کے ذریعہ متنبہ کیا گیا تھا کہ نوٹ بندی کرنا غلطی ہوگی۔ رگھورام راجن نے اس قدم پر تبادلہ خیال کرنے اور اپنا عدم اتفاق ظاہر کرنے کے بعد آر بی آئی کے گورنر عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ نئے گورنر اُرجت پٹیل کو عہدہ حاصل کرنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی نوٹ بندی کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے 8 نومبر کو مودی کی تقریر سے ٹھیک پہلے شام 5.00 بجے ہوئی آر بی آئی کی میٹنگ کے منٹس کو قومی سیکورٹی اور ’جان کو خطرے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
جب اس میٹنگ کے منٹس آخر کار 2 سال بعد نومبر 2018 میں پریس میں لیک ہو گئے تو پٹیل نے استعفیٰ دے دیا۔ آر بی آئی کے منٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بتایا تھا کہ: معیشت 2011 اور 2016 کے درمیان 30 فیصد بڑھی تھی، لیکن اعلیٰ قدر کے کرنسی نوٹ تیزی سے بڑھے تھے۔
کہ نقدی کالے دھن کی جننی ہے۔
کہ سسٹم میں تقریباً 400 کروڑ روپے کے نقلی نوٹ موجود ہیں۔
اس لیے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو نامنظور کر دیا جانا چاہیے۔
اس پر آر بی آئی نے حکومت کو جواب دیا:
کہ حکومت کے ذریعہ ظاہر معاشی ترقی حقیقی تھی، جبکہ کرنسی میں اضافہ نام محض کا تھا اور مہنگائی کے لیے ایڈجسٹ نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے یہ دلیل نوٹ بندی کی سفارش کی مناسب حمایت نہیں کرتا۔
بیشتر کالے دھن کو زمین یا سونے کی شکل میں رکھا گیا تھا نہ کہ نقدی کی شکل میں، اور کرنسی کو ختم کرنے سے کالے دھن پر کوئی لگام نہیں لگ سکے گا
کہ نوٹ بندی کا جی ڈی پی پر منفی اثر پڑے گا۔
کہ چلن میں مجموعی نقدی کے مقابلے میں 400 کروڑ کی نقلی کرنسی کا ہونا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف 0.02 فیصد بیٹھتا ہے جبکہ سسٹم میں مجموعی نقدی 18 لاکھ کروڑ روپے کی ہے۔
یہ سب کہنے کے بعد بھی آر بی آئی بورڈ نے مودی کے نظریہ پر اپنی مہر لگا دی۔ اس طرح گھٹنے ٹیکنے کو خفیہ رکھنے کی کوشش کے واضح اسباب ہیں۔ اس نے منصوبہ کی خامی بتا کر اپنا کام کر دیا تھا اور اب وہ مودی کو بچا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آر ٹی آئی کارکنان نے نوٹ بندی کے اعلان سے ٹھیک پہلے ہوئی آر بی آئی کی میٹنگ کے منٹس مانگے تو اُرجت پٹیل نے قومی سیکورٹی کا حوالہ دے کر ایسا نہیں کیا۔
بے شک، واقعات نے ثابت کر دیا کہ ہر معاملے میں آر بی آئی نے نوٹ بندی کے نفع نقصان کے بارے میں بالکل درست پیشین گوئی کی تھی۔ آر بی آئی جو چھپا رہا تھا وہ یہ بات تھی کہ مودی نے اس کی فکروں کو نظر انداز کر دیا تھا، حالانکہ بعد میں وہ سبھی صحیح ثابت ہوئیں۔
ہندوستان میں غیر منظم سیکٹر (زراعت سمیت) مجموعی معیشت کا تقریباً نصف ہے اور یہ تقریباً پوری طرح نقدی پر کام کرتا ہے۔ اس سیکٹر اور ہندوستان کے غریبوں پر اس کا کیا اثر ہوا، اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ مودی کی طرف سے اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ اعلان سے چند منٹ پہلے تک کابینہ کو خود اس فیصلے کی جانکاری نہیں تھی، اسی وجہ سے کسی وزیر یا وزارت نے بھی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔
(’پرائس آف دی مودی ایئرس‘، ونٹیج بکس کی اجازت سے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔