آخر یہ ہو کیا رہا ہے، راجیو گاندھی کے قاتل رِہا!... ظفر آغا
یہ محض ایک حیرت ناک ہی نہیں بلکہ ناقابل قبول اور افسوسناک بات ہے۔ مگر کیا کیجیے، اب اس ’نئے ہندوستان‘ میں انصاف کے بھی نئے پیمانے بن رہے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس سے ہندوستان کا بھلا نہیں ہو رہا ہے
کمال ہے صاحب، اب راجیو گاندھی کے قتل کے مجرمین بھی آزاد گھومیں گے۔ یہ ہے ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ۔ آخر اس ملک کو ہو کیا گیا ہے! نرودا پاٹیا کے قاتل کو حکومت گجرات نے رِہا کر دیا۔ اب سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی قتل کیس کے مجرموں کو رِہا کر دیا۔ بقول کانگریس پارٹی یہ فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے۔ بے شک جس کو بھی راجیو گاندھی کا قتل یاد ہے، وہ اس فیصلے سے متفق نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ 21 مئی سنہ 1991 کی رات کا واقعہ ہے۔ پارلیمنٹ کی چناوی مہم اپنے عروج پر تھی۔ میں مہاراشٹر میں وی پی سنگھ کی مہم کا دورہ کرنے کے بعد بس لوٹا ہی تھا کہ 21 مئی کی سخت گرمیوں کی رات یہ منحوس خبر آئی کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی تمل ناڈو میں مدراس کے پاس مار دیئے گئے۔ پہلے تو کچھ منٹ یقین ہی نہیں آیا۔ پھر خبر سنی اور سکتے میں رہ گئے۔ مجھ کو ابھی بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا۔ ان دنوں ہم انڈیا ٹوڈے کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے۔ خبر ملتے ہی ہم دہلی میں راجیو گاندھی کے دس جن پتھ والی رہائش گاہ کو بھاگے۔ دیکھتے دیکھتے راجیو گاندھی کا گھر لوگوں سے بھر گیا۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ راجیو گاندھی مارے گئے۔
بھلا کیسے یقین آتا! راجیو گاندھی اپنے دور کے سب سے معصوم انسان تھے۔ بھولے بھالے، سیاست کی ریشہ دوانیوں سے پرے وہ ہندوستان کی ترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے۔ آج ہندوستان ساری دنیا میں آئی ٹی سیکٹر میں جس بلندی پر ہے، وہ راجیو گاندھی کی ہی دین ہے۔ اس ملک کے ہاتھوں میں کمپیوٹر دینے والی شخصیت کا نام راجیو گاندھی ہے۔ جی ہاں، سیم پترودا کی قیادت میں راجیو گاندھی نے ہندوستان میں مرکزی سرکار میں ہر سطح پر کمپیوٹر لگوا دیا۔ بس دیکھتے دیکھتے سارا ہندوستان کمپیوٹر میں لگ گیا اور آج گھر گھر اس ملک میں کمپیوٹر پہنچ گیا جس نے ملک کو اکیسویں صدی کی ترقی کی راہ سے جوڑ دیا اور دیکھتے دیکھتے ہندوستان ساری دنیا کی برابری کرنے لگا۔
لیکن افسوس، راجیو گاندھی کو اس ملک میں نہ ان کی زندگی میں اور نہ ہی ان کی موت کے بعد کبھی انصاف ملا۔ جب راجیو گاندھی اس ملک کو کمپیوٹر سے وابستہ کر رہے تھے تو سارا ہندوستان ان کے اس انقلاب کا مخالف تھا۔ راجیو اور ان کے نوجوان ساتھیوں کو طنز سے ’کمپیوٹر بواسیر‘ کہا جاتا تھا۔ اسی طرح جب راجیو گاندھی ملک کو اکیسویں صدی سے جوڑ رہے تھے تو ان پر بوفورس بندوق خریدی کے معاملے میں رشوت کا الزام لگا۔ وی پی سنگھ کی قیادت میں ساری اپوزیشن نے راجیو گاندھی کے خلاف ایک طوفان بپا کر دیا۔ جس کو دیکھو اس کی زبان پر ان دنوں بوفورس گن کا نام زبان پر تھا۔ آخر سنہ 1989 کا پارلیمانی چناؤ اسی بوفورس کے نام پر ہوا۔ کانگریس اقتدار سے باہر ہو گئی اور وی پی سنگھ وزیر اعظم بنے۔ لیکن کچھ سالوں بعد عدالت نے راجیو گاندھی کو باعزت بری کر دیا۔ راجیو بوفورس معاملے میں بری ہو گئے۔ لیکن اس بات کا ملک میں شور نہیں ہوا۔ زیادہ تر ہندوستانی آج بھی راجیو کو بوفورس معاملے میں غلط سمجھتے ہیں، جو غلط ہے۔ سچ یہ ہے کہ راجیو گاندھی ایک انتہائی معصوم شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے جس کو دوست سمجھا اس نے دیر سویر راجیو کو دھوکہ دیا۔
ایسی معصوم شخصیت کو آخر 21 مئی 1991 کو مدراس کے قریب قاتلوں نے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے آخر راجیو کے قاتلوں کو بھی رہا کر دیا۔ یہ محض ایک حیرت ناک ہی نہیں بلکہ ناقابل قبول اور افسوسناک بات ہے۔ مگر کیا کیجیے، اب اس ’نئے ہندوستان‘ میں انصاف کے بھی نئے پیمانے بن رہے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس سے ہندوستان کا بھلا نہیں ہو رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔