2024 میں ہم اپنی جمہوریت کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے!... تشار گاندھی
ہم جمہوریت کو بچانے میں کامیاب ضرور ہو گئے ہیں، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، مثلاً لبرل اور سیکولر طاقتوں کو قابل ترغیب بننا ہوگا۔
گاندھی اس ملک کے ذہن میں اب بھی آزادی کی علامت بنے ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آزادی کے لیے عام ہندوستانیوں کے ناقابل تسخیر جذبہ، مضبوط قوتِ ارادی اور عزم مصمم کے مقروض ہیں جن کے دم پر برطانوی حکومت سے جنگ لڑی اور جیتی گئی۔
آزاد ہندوستان کی پہلی چار دہائی اس کے باوقار سال تھے۔ آزادی کے بعد آزاد ہندوستان کے شہریوں نے ایک ایسے ملک کی تعمیر میں بہت بڑا تعاون دیا جو پیدائش کے ساتھ ہی تباہ ہو گیا تھا۔ ہندوستانیوں کی اس نسل نے ہماری نوزائیدہ جمہوریت کی ایک مضبوط بنیاد رکھی۔ لیکن اس کے بعد کی نسل اپنے بارے میں زیادہ سوچنے والی تھی۔ ہماری سیاست، ہمارے سماج کی طرح ہی لالچی اور خود پرست بن گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب آر ایس ایس کی کٹر پسند، تخریب کار طاقتوں نے نفرت کی اپنی خطرناک مہم شروع کی۔ زہر تیزی کے ساتھ دماغ اور عوامی گفتگو میں بھرتا گیا۔ سیاسی نظریہ دھندلا ہو گیا، لبرل و سیکولر مقامات محدود ہو گئے۔
آج بدقسمتی سے بہت سارے ہندو سخت گیر ہو گئے ہیں۔ انھیں مذہب کا صحیح علم نہیں ہے اور ان کے دماغ میں ’سیاسی ہندوتوا‘ کے برے، اقتدار ہتھیانے والے خیال بھر گئے ہیں۔ ہمیں ہندوؤں کو یہ سمجھنے میں مدد کرنی چاہیے کہ ہندو مذہب اور ہندوتوا ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں- ایک مذہبی طرز زندگی ہے تو دوسرا اقتدار ہتھیانے کا سیاسی وسیلہ۔ ہندوستانی آئین وفاقی نظام کی طرف زیادہ مضبوطی سے آگے بڑھنے اور آر ایس ایس کے ’اکھنڈ‘ (غیر منقسم) تصورات کو ظاہر کرنے کا ہمارا نظام ہے۔ آئین ہی ہماری واحد تلوار بھی ہونی چاہیے اور ڈھال بھی۔ اظہار رائے کی آزادی کو واپس پانے کا ایک ہی طریقہ ہے، اس کا استعمال کرنا۔ بے خوف بنو۔ غیر ہندوؤں کے تئیں جارحیت کے ذریعہ سے نہیں بلکہ کسی سے نہ ڈرتے ہوئے اپنی بات کہنے کی ہمت پا کر۔ راہل گاندھی نے لوگوں سے نہ ڈرنے کی گزارش کر کے اس کی شروعات کی۔ ان کا ’ڈرو مت!‘ کا نعرہ بالکل درست ہے۔ میں مہاتما گاندھی کا حوالہ پیش کرتا ہوں: ’اگر ہمارے لیڈر وہ کہہ رہے ہیں جو آپ کی رائے میں غلط ہے، اور اگر ہم انھیں اپنی بات سنانا ذمہ داری سمجھتے ہیں، بھلے ہی اسے وطن سے غداری تصور کیا جائے، تو میں آپ سے وطن سے غداری کی گزارش کرتا ہوں- لیکن اپنے جوکھم پر۔ آپ کو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘
میڈیا کو جھوٹ پھیلانے کے لیے سزا دی جانی چاہیے، لیکن اسے دبانے اور کنٹرول کرنے کے لیے نہیں۔ یہ آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ جہاں تک ساتھی پارٹیوں کے درمیان شگاف پیدا کرنے کی بی جے پی کی کوششوں کی مخالفت سے متعلق بات ہے، تو انڈیا بلاک کو نااتفاقیوں کے باوجود متحد رہنا چاہیے۔ علیحدگی پسندوں کو شکست دینے کا عزم مصمم اسے ایک مضبوط حریف کی شکل میں یکسر باندھنے والا گوند بننا چاہیے۔ انڈین نیشنل کانگریس کو ایک جوڑنے والے ایجنٹ کا کردار نبھانا ہوگا۔ اس کے لیے کانگریس کو وسیع رد و بدل اور تنظیمی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پارٹی کا اوپری حصہ بہت بھاری ہے جس کی وجہ سے کارکنان گمراہ اور مایوس ہیں۔ کانگریس کارکنان کو پارٹی کی وراثت اور روایت کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی ایمانداری پارٹی کے تئیں ہونی چاہیے، نہ کہ لیڈروں کے تئیں۔ معاون تنظیموں، خاص طور سے سیوا دَل، یوتھ کانگریس، این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا)، مہیلا کانگریس اور ساتھ ہی اس کے مزدور یونینوں کو از سر نو زندہ کیا جانا چاہیے اور اصل پارٹی کے ذریعہ انھیں ضروری آزادی دی جانی چاہیے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایم کے گاندھی نے احمد آباد میں ہندوستان کے پہلے منظم صنعتی کاروبار یونین ’مجور مہاجن‘ کا قیام کیا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ ان سرکردہ تنظیموں کو پارٹی کی ابتدائی رسائی شاخ بننا چاہیے۔ اصل پارٹی کو دانشمندی پر مشتمل جانکاری اور پالیسی دستیاب کرانے تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ جمہوریت کے دیگر ستونوں کی طرح عدلیہ کو بھی اپنے ضمیر کو تلاش کرنا چاہیے۔ عدلیہ کے ایک بہت بڑے حصہ نے اخلاقیات کو چھوڑ دیا ہے اور یہ بھول گیا ہے کہ وہ آئین اور ہندوستان کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں، نہ کہ اقتدار میں بیٹھے لیڈروں کی۔ ذیلی اور وسطی سطح کی عدلیہ کو عوامی تجزیہ کے ماتحت ہونا چاہیے جو ان کے عہدہ پر بنے رہنے اور پروموشن کو متعین کرے۔ لوگوں کو انصاف ملے، اسے مضبوط کرنے کے مقصد سے انھیں اپنے کام کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
جہاں تک نو تشکیل قوانین (نیائے سنہتا، پی ایم ایل اے، یو اے پی اے، سی اے اے/این آر سی، آئی ٹی اور ٹیلی گراف ایکٹ) کا سوال ہے، انھیں پھر سے لکھنے کا دباؤ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی نہیں بلکہ سڑکوں سے بھی آنا چاہیے۔ حال کے دنوں میں ہم نے عوامی طاقت کی صلاحیت دیکھی ہے۔ اگر کووڈ مداخلت نہیں کرتا تو حکومت کو سی اے اے/این آر سی پر مخالفت کے آگے جھکنا پڑتا۔ کسانوں نے آخر وزیر اعظم کو سخت زرعی قوانین کو چھوڑنے کے لیے مجبور کرنے میں کامیابی پائی۔ میرا ماننا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو ان کے ذریعہ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے مجبور کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ بہار کے طلبا لیڈران تک اپنے عدم اتفاق، ناراضگی کو ضروری مقام تک پہنچانے اور انھیں طلبا کے مستقبل سے متعلق فکر کرنے کے لیے مجبور کرنے میں کامیاب رہے۔ ستیاگرہ اب بھی ہندوستان میں ایک مضبوط طاقت ہے، یہ اب بھی بامعنی ہے۔
اگر ایک سماج کی شکل میں ہم جمہوری حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کے بارے میں زیادہ بیدار اور باشعور ہو جاتے ہیں تو ’ہم بھارت کے لوگ‘ اپنی جمہوریت میں اہم طاقت بن جائیں گے۔ لبرل، سیکولر طاقتوں کو اس عمل کو تیز کرنے کے لیے قابل ترغیب بننا چاہیے۔ ہم بہت زیادہ منکسر المزاج ہو گئے ہیں، ہمیں مزید تحریک کرنی چاہیے۔ 2024 میں ہم لوگ اپنی جمہوریت کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہ عمل ہندوستانیوں سے بہادر بننے اور ملک و ہماری جمہوریت کے لیے قربانی دینے کی اپیل کرتا ہے۔
(مضمون نگار تشار گاندھی بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پڑپوتے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔