گھوٹالے باز بھاجپا: کتابچہ شائع کر شیو سینا نےقلعی کھولی
مہاراشٹر میں شیو سینا بی جے پی کے لیے دردِ سر بن گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ پر اُدھو ٹھاکرے ہمیشہ حملہ کرتے ہی رہتے ہیں لیکن ان کی پارٹی ’شیو سینا‘ نے گزشتہ ہفتہ ’گھوٹالے باز بھاجپا‘ کے نام سے جو کتابچہ شائع کیا ہے، اس نے بی جے پی کی نیند حرام کر دی ہے۔ اس پورے معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ’شیو سینا‘ نے کتابچہ اپنے کارکنان میں تقسیم کر ہنگامہ بھی برپا کر دیا ہے اور خود کو باضابطہ طور پر اس کتابچہ سے جوڑا بھی نہیں ہے۔
دراصل معاملہ ہے گزشتہ یکم نومبر یعنی بدھ کا۔ اس دن شیو سینا سربراہ اُدھو ٹھاکرے نے ممبئی واقع اپنی رہائش ’ماتوشری‘ میں منعقد ایک تقریب کی صدارت کی جس کے آخر میں ’گھوٹالے باز بھاجپا‘ کتابچہ پارٹی کارکنان میں تقسیم کیا گیا۔ 56 صفحات پر مبنی اس کتابچہ میں شیو سینا نے بی جے پی کے 10 سے زائد لیڈروں کی تصویر کے ساتھ ان کے گھوٹالوں کا تذکرہ کیا ہے۔ صفحہ اول پر ہی بی جے پی کے مشہور لیڈر ایکناتھ کھڑسے، ونود تاؤڑے، گریش باپٹ اور دلیپ گاندھی کی تصویر اور ان کے گھوٹالوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس صفحہ پر مراٹھی زبان میں زمین گھوٹالہ، ویاپم گھوٹالہ، کارگل گھوٹالہ، اشیائے خوردنی گھوٹالہ، ایل ای ڈی بلب گھوٹالہ، قبائلی لٹریچر گھوٹالہ، سولر پمپ گھوٹالہ، آگ بجھانے کی مشین گھوٹالہ، ٹیکس اور قرض معافی گھوٹالہ وغیرہ کی فہرست دی گئی ہے اور آئندہ صفحات میں اس سے متعلق تفصیلات ہیں۔ سینئر لیڈر ایکناتھ کھڑسے پر جہاں زمین قبضہ کرنے کا الزام عائد ہے وہیں اسکولوں کے لیے فائر ٹنڈر خریدنے میں بے ضابطگی کے الزامات میں پھنسے وزیرتعلیم ونود تاؤڑے اور دال کی خرید میں بدعنوانی کے الزام کا سامنا کر رہے وزیر گریش مہاجن پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ چکی گھوٹالہ میں پنکجا منڈے، ویاپم گھوٹالہ میں مدھیہ پردیش حکومت، ایل ای ڈی گھوٹالہ میں مرکزی حکومت، قبائلی ادب گھوٹالہ میں گریش باپٹ، سولر پمپ گھوٹالہ میں چندر شیکھر باونکولے وغیرہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔
کتابچہ تقسیم کیے جانے کے بعد جب میڈیا میں بات پھیلی تو شیو سینا اور بی جے پی کے لیڈروں کا بیان بھی کم دلچسپ نہیں تھا۔ ایک طرف شیو سینا ممبر پارلیمنٹ سنجے راؤت نے یہ کہہ دیا کہ ’’تنظیمی میٹنگ میں کسی نے کیا تقسیم کیا ہمیں نہیں معلوم‘‘، تو دوسری طرف بی جے پی کے ترجمان مدھو چوان نے کہہ ڈالا کہ ’’شیو سینا مہاراشٹر حکومت کا حصہ ہے لیکن اپوزیشن کی طرح سلوک کر رہی ہے۔ وہ ریاستی حکومت کی تنقید بھی کر رہے ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے ہر طرح کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں‘‘۔ چوان نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’مرحوم بالا صاحب ٹھاکرے نے کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ ایسی گندی سیاست نہیں کی۔‘‘
اتنا تو طے ہے کہ’گھوٹالے باز بھاجپا‘ کتابچہ شیو سینا کے نام سے شائع نہیں ہواہے لیکن اس کی اشاعت کے پیچھے اُدھو ٹھاکرے کا دماغ کام کر رہا ہوگا۔ کیونکہ ان کی اجازت کے بغیر ان کی ہی میٹنگ کے بعد پارٹی کارکنان میں کوئی لیڈر کتابچہ تقسیم کرے اور اس کی خبر انھیں نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ ویسے بھی اس میٹنگ میں اُدھو ٹھاکرے نے اپنے خطاب کے دوران واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ بی جےپی کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہے گی اور شیو سینا کارکنان کسی بھی وقت انتخابات کے لیے تیار رہیں۔ کتابچہ تقسیم کیے جانے کے بعد شیو سینا کارکنان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ وہ بی جے پی کے گھوٹالوں کا پردہ فاش کرنے کے لیےاور عوام کو بی جے پی حکومت کی ناکامی سے روشناس کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی نہ تو بی جے پی نے شیو سینا کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی شیو سینا نے بی جے پی سے رشتہ منقطع کرنے کے لیے قدم آگے بڑھایا۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے مہاراشٹر حکومت اور نریندر مودی و امت شاہ اُدھو ٹھاکرے کے نشانے پر رہے ہیں اور اکثر و بیشتر سامنا میں ان کے خلاف اداریے بھی لکھے جاتے رہے ہیں۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، مہنگائی وغیرہ ایشوز پر نہ صرف انھیں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا بلکہ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے۔ لیکن بی جے پی کی جانب سے شیو سینا کی حرکتوں پر صرف ناراضگی ظاہر کی گئی، کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ اس سے واضح تو یہی ہوتا ہے کہ بی جے پی کسی بھی حال میں اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتی۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی اور کتنا ذلیل ہو سکتی ہے، کیونکہ اُدھو ٹھاکرے نے اپنی باتوں اور اپنے عمل سے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات اور اسمبلی انتخابات تنہا لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بات کا احساس وزیر اعلیٰ فڑنویس کو بھی بہت اچھی طرح ہے، تبھی تو انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ شیو سینا حکومت کے ساتھ ضرور ہے لیکن سختی کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔