اتر پردیش: تمام ہنگامہ کے بعد بھی جیت کو لے کر بی جے پی پراعتماد نہیں، نیائے یاترا کا بھی نظر آ رہا اثر
رام مندر کو لے کر بی جے پی نے خوب ہنگامہ پیدا کیا اور اس کی تشہیر میں پوری طاقت لگا دی، لیکن عوام میں اس تعلق سے کچھ خاص جوش دکھائی نہیں دے رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ میرا ٹیلی ویژن سیٹ ٹاپ باکس 2019 سے بغیر سبسکرپشن کے پڑا ہے۔ میں گزشتہ کچھ وقتوں کے دوران جن گھروں میں گیا، بیشتر کا یہی حال ہے۔ سب نے کہا کہ ٹی وی ویسے ہی پڑا رہتا ہے۔ دراصل لوگوں نے خبر پر نظر رکھنے اور تفریح کے لیے دوسرے راستے تلاش کر لیے ہیں۔ لیکن ابھی گزشتہ ہی ہفتے میں نے رامپور میں ایک بزرگ چچا کو ٹی وی نیوز دیکھتے پایا۔ یہ ایک ریجنل نیوز چینل تھا اور لگتا تھا جیسے اینکر اسکرین سے یہ کہتے ہوئے بالکل باہر آ جائے گا کہ اپوزیشن ختم ہو گیا ہے۔ ایک طرح سے اینکر نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی اتر پردیش میں 80 میں سے 80 لوک سبھا سیٹیں جیت جائے گی۔
میں نے ٹیلی ویژن نیوز میں 14 سال گزارے ہیں اور مجھے اب اس کی اہمیت ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ گھٹتی بڑھتی ٹی آر پی نمبر بھی کچھ ایسا ہی ظاہر کرتا ہے کہ ٹیلی ویژن واقعی بستر مرگ پر ہے، لیکن پروپیگنڈا نیوز نہیں۔ خبروں سے جڑے لوگوں نے ڈیجیٹل انقلاب کی راہ اختیار کر لی ہے اور وہی سوچ واٹس ایپ، فیس بک اور ایکس پر ہے۔ لوگ بھی اس پر یقین کرنے لگے ہیں کہ اپوزیشن تقریباً ختم ہو گیا ہے۔
ایودھیا میں رام مندر کے ارد گرد تیار بے پناہ ہنگامہ، اپوزیشن کے کسی ایک لیڈر کے بھی پارٹی بدلنے اور اپوزیشن میں نااتفاقی بڑھنے پر ’قیمت پر آئے‘ مہمانوں اور تجزیہ نگاروں کے مباحث کی وجہ سے ٹیلی ویژن پر اپوزیشن کے لیے تصویر تاریک دکھائی دیتی ہے۔ یہ اتنی تاریک ہے کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے کچھ سخت گیر حامیوں نے اس یقین کی وجہ سے انتخابات کے وقت چھٹیوں کے لیے ٹکٹ بک کرا لیے ہوں گے کہ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہونے والی ہے۔
لیکن بی جے پی اتنی مطمئن نہیں ہے۔ وہ کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتی۔ کسی بھی سطح کے کسی بی جے پی لیڈر سے پوچھیے تو وہ کہے گا کہ اس بار میدان جیتنا اتنا آسان نہیں جتنا یہ 2019 اور 2014 میں تھا۔ ایسا اس لیے کہ جو انتخابی کام میں مصروف رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ صحیح امیدوار کا انتخاب، توازن، وسائل کو جمع کرنا اور ووٹنگ مراکز پر مستعدی کا فتح و شکست میں اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا کی روش محض اس کا ایک حصہ ہے۔ بی جے پی کے سرکردہ لیڈران یہ بھی جانتے ہیں کہ رام مندر والا ماحول بنانے میں کتنی سمجھداری دکھانی پڑی اور کتنی مشقت کرنی پڑی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاستی مشینری کے استعمال، دھاندلی کے الزامات، کم ووٹنگ اور منقسم اپوزیشن کے باوجود میئرس کے انتخابات میں حقیقی اعداد و شمار کیا رہے۔
مغربی اتر پردیش میں دلت کارکن شری رام موریہ یاد کرتے ہیں کہ ’’آر ایس ایس سے جڑی تنظیموں اور بی جے پی کارکنان نے مندر کا ہنگامہ پیدا کیا۔ ہر جگہ نظر آ رہے بھگوا جھنڈوں کے لیے ادائیگی نامعلوم تنظیموں نے کی، ہر جگہ لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور بی جے پی کارکنان گھر گھر گھومے۔ ان کوششوں سے وہ کٹر ووٹ اکٹھا ہوئے جو پہلے سے ہی ویسے جوش میں تھے، لیکن یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے ساتھ نہیں ہوا۔‘‘
غازی آباد میں بجریا باشندہ ستیش جاٹو کا کہنا ہے کہ ’’سب جانتے تھے کہ یہ بی جے پی کا پروگرام ہے جسے بی جے پی کارکنان اور پی آر ایجنسیوں نے انجام دیا۔‘‘ وہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بی جے پی ووٹروں کا جوش اپوزیشن کے لیے افسردہ ہونے کی پشین گوئی کرنے کا کوئی سبب نہیں۔ الیکشن مینجمنٹ گروپ سے منسلک مراد آباد کی شاردا اگروال اس پر اتفاق ظاہر کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پروپیگنڈا کے ذریعہ اپوزیشن حامیوں کو افسردہ کرنا ہر سیاسی پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ حال ہی میں ہوئے مقامی بلدیاتی انتخابات میں ایک امیدوار صرف ایک ووٹ سے ہار گیا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’’اس کے بھائی کو یقین تھا کہ یہ امیدوار میدان میں کہیں ہے ہی نہیں اور ووٹ کے دن وہ اپنے کنبہ کے سات لوگوں کے ساتھ نینی تال چلا گیا۔ وہ ووٹ پڑتے تو نتیجہ کچھ الگ ہوتا!‘‘
دوستانہ لڑائی؟
مایاوتی کے بارے میں کوئی کچھ بھی یقین سے کبھی نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے بی ایس پی کے تنہا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کوئی اسے آخری سچ نہیں مانتا۔ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے حالانکہ 2019 میں اتحاد بنا کر انتخاب لڑا تھا، لیکن ان انتخابات میں دونوں دو کناروں پر ہیں۔ بی ایس پی نے 2019 میں 10 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں۔ بھلے ہی ڈمپل یادو قنوج سے ہار گئیں، لیکن سماجوادی پارٹی نے یادووں کے قلعہ کہے جانے والے علاقے سے سبھی پانچ سیٹیں جیت لی تھیں۔ آر ایل ڈی کے این ڈی اے میں چلے جانے سے اکھلیش یادو تنہا لگ سکتے ہیں۔ ایک سماجوادی پارٹی لیڈر نے کہا کہ ’’اتحاد کی سیاست اکھلیش کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتی۔ 2017 میں کانگریس کے ساتھ اتحاد میں رہتے ہوئے وہ انتخاب ہارے اور پھر 2019 میں بی ایس پی کے ساتھ اتحاد میں بھی یہی ہوا۔‘‘
سوامی پرساد موریہ کا چلا جانا تازہ جھٹکا ہے۔ ویسے موریہ سماجوادی پارٹی سے پہلے بی جے پی میں بھی رہے، لیکن پڈرونا اور آس پاس کے علاقے میں وہ اثرانداز بنے ہوئے ہیں۔ رام چرت مانس کے اس جملہ ’ڈھول، گنوار، شودر، پشو، ناری، یہ سب ہیں تاڑن کے ادھیکاری‘ کی تشریح کرتے ہوئے جب انھوں نے سناتن مذہب اور ’منوادی‘ روایات کے خلاف مہم شروع کی تو سماجوادی پارٹی نے ان سے دوری اختیار کر لی تھی۔ سماجوادی پارٹی نے بدایوں سیٹ سے اپنے امیدوار کا اعلان کیا تو وہ پریشان ہو گئے تھے۔ یہاں سے 2019 میں ان کی بیٹی بی جے پی امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئی تھی۔
اس بات پر بحث تیز ہے کہ اس لوک سبھا انتخاب میں مسلم ووٹر کانگریس کی طرف زیادہ جھکے ہوئے ہیں اور کانگریس بھی مسلم-دلت سماجی اتحاد کو منظم کرنے کے خیال سے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کے لیے زیادہ خواہشمند ہے۔ گلی کوچے میں یہ چٹکلا چل رہا ہے کہ ای ڈی اپوزیشن کی سیٹ شیئرنگ کو آخری شکل دے گی۔ ویسے سنجیدگی سے کہیں تو اس بات پر عام رائے ہے کہ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے درمیان رسمی اتحاد ہو یا نہیں، پھر بھی انھیں غیر رسمی اتحاد سے فائدہ ملے گا اور جہاں تک ممکن ہو ’دوستانہ لڑائی‘ ہوگی۔
بھارت جوڑو نیائے یاترا:
’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کو لے کر میڈیا کی مین اسٹریم کا رخ بھلے ہی ٹھنڈا ہو، کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی باتیں لوگوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ واٹس ایپ گروپس میں شیئر کیے جا رہے ہیں اور اس پر لوگ ایک دوسرے سے باتیں بھی کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں اور لوگوں کو اپنے مائیکروفون سے اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ باتیں لوگوں کو پسند آ رہی ہیں کیونکہ یہ ان کی، ان کے آس پاس کی چیزیں ہیں۔ ایک مثال دیکھیے ’’میں نے وارانسی میں نشے میں شرابور نوجوانوں کو اپنے موبائل پر ویڈیو دیکھتے پایا۔ وہ اپنی زندگی یہ سب دیکھتے اور بے کار کی ویڈیو شیئر کرتے برباد کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اڈانی کے بیٹے کے پاس یہ سب ویڈیو دیکھنے کا وقت نہیں ہے...۔
(منی بندوپادھیائے کے اِنپٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔