راجیہ سبھا انتخابات: بساط بچھ چکی ہے، بس اپنے مہروں پر نظر رکھنا ہے
اگر بی ایس پی کا امیدوار فتحیاب ہوتا ہے تو آنے والا وقت بی جے پی کے لیے مشکل بھرا ہوگا اور اگر بی جے پی 9 سیٹیں جیتتی ہے تو بی جے پی کے خلاف تیار ہو رہے اپوزیشن محاذ کی مضبوطی کو دھچکا لگے گا۔
ایک طرف لوک سبھا ضمنی انتخابات میں ’بوا-ببوا اتحاد‘ کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا کر چکی بی جے پی اب راجیہ سبھا انتخابات میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی، اور دوسری طرف اپنی ’بوا‘ یعنی مایاوتی کو پھول پور-گورکھپور میں فتح کے ’ریٹرن گفٹ‘ کے طور پر راجیہ سبھا سیٹ دینے کے لیے منصوبہ بندی تیار کر رہے ہیں۔
اس پورے کھیل میں بی جے پی کے لیے معاملہ کچھ پیچیدہ نظر آ رہا ہے، کیونکہ راجیہ سبھا انتخابات میں ایس پی-بی ایس پی کے ساتھ کانگریس اور آر ایل ڈی بھی کھڑی نظر آ رہی ہے۔ معاملہ چونکہ ممبران اسمبلی کے ووٹ کا ہے، اس لیے ماحول بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی جگہ جوڑ-گھٹاؤ پر زیادہ رہتی ہے۔ ملک کی کل 58 راجیہ سبھا سیٹوں کے لیے 23 مارچ یعنی جمعہ کو انتخاب ہونا ہے۔ ان میں سے دس سیٹیں اتر پردیش سے ہیں۔
اسمبلی کی موجودہ منظرنامے کے مطابق بی جے پی کے پاس 8 سیٹیں جیتنے کے لیے ووٹ ہیں، لیکن اس نے نواں امیدوار اتار کر پورے کھیل کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ بی جے پی کے نویں امیدوار انل اگروال کے لیے تعداد کے مطابق 9 ووٹ کم ہیں۔ دوسری طرف ووٹوں کی بنیاد پر سماجوادی پارٹی اپنے امیدوار یعنی جیہ بچن کو تو بہ آسانی فتحیاب کرا سکتی ہے لیکن بی ایس پی کے بھیم راؤ امبیڈکر کو سارے ووٹ ملنے کے بعد بھی ایک ووٹ کی کمی نظر آ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں سب کی نگاہیں آزاد ممبران اسمبلی کے ووٹ پر ہیں۔
اتر پردیش سے راجیہ سبھا کی کل 10 سیٹوں کے لیے فی الحال 11 امیدوار میدان میں ہیں۔ اسمبلی کی صلاحیت کے مطابق ایک سیٹ کے لیے 37 ممبران اسمبلی کے ووٹ چاہیے۔ بی جے پی اور اس کی ساتھی پارٹیوں کو ملا کر کل 324 ممبران اسمبلی ہیں۔ ایسی صورت میں 8 سیٹیں جیتنا تو یقینی ہے لیکن نویں سیٹ کے لیے اسے کم از کم 9 مزید ووٹ چاہیے۔
جہاں تک بی جے پی مخالف ووٹوں کا سوال ہے، ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور آر ایل ڈی کو ملا کر 74 ووٹ ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایس پی اور بی ایس پی دونوں سیٹیں جیت سکتی ہیں۔ لیکن بی جے پی نے کچھ دنوں قبل نریش اگروال کو پارٹی میں شامل کر کے جو داؤ کھیلا ہے اس سے بی جے پی کے خلاف تیار ہو رہے ایس پی-بی ایس پی یا پھر کہیں کہ اپوزیشن اتحاد کی ایک سیٹ پھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس ایک سیٹ پر بی ایس پی کے بھیم راؤ امبیڈکر میدان میں ہیں۔
نریش اگروال کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد ان کے ممبر اسمبلی بیٹے جو سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر فتحیاب ہوئے تھے، بی جے پی کی میٹنگ میں نظر آئے۔ اس طرح ان کا ووٹ اگر بی جے پی کو گیا تو بی ایس پی کے پاس ایک ووٹ کم ہو جائے گا۔
اس کھیل کو دلچسپ بناتے ہیں اتر پردیش کے چار آزاد ممبران اسمبلی۔ پہلے ممبر اسمبلی کا نام ہے وجے مشرا، گیان پور، جو نشاد پارٹی سے تنہا ممبر اسمبلی ہیں۔ یہ پہلے ایس پی سے تین بار ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں، لیکن ٹکٹ کے معاملے میں پارٹی سے تلخی ہو گئی تھی اور بطور آزاد امیدوار فتحیاب ہوئے۔ ان پر کئی مجرمانہ مقدمے ہیں۔ بی ایس پی حکومت میں بھی ان پر نظر رکھی گئی تھی۔ ایسے میں اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ وہ ایس پی-بی ایس پی اتحاد کو ووٹ دیں گے۔ ویسے بھی وہ بی جے پی کو حمایت دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔
دوسرے ممبر اسمبلی کنڈا سے تعلق رکھتے ہیں جن کا نام ہے راجہ بھیا۔ راجہ بھیا ممکن ہے ایس پی-بی ایس پی کو ووٹ دیں کیونکہ گزشتہ بدھ کی شام لکھنؤمیں ہوئی سماجوادی پارٹی کے ڈنر میں وہ اکھلیش یادو اور جیہ بچن کے ساتھ بیٹھے نظر آئے ہیں۔ راجہ بھیا کے پاس دو ووٹ ہیں۔ ایک خود کا اور دوسرا ویمل کمار کا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ بھیا کی بدولت ہی فتحیاب ہوتے ہیں۔ لہٰذا ووٹ بھی انھیں کے اشارے پر دیں گے۔ ویسے مایاوتی نے تو 2002 میں راجہ بھیا کے والد سمیت ان کے کئی رشتہ داروں پر مجرمانہ معاملے درج کرا دیے تھے۔
ایک اور ممبر اسمبلی ہیں امن منی ترپاٹھی ہیں جو نوتنواں سے ممبر اسمبلی ہیں اور امر منی کے بیٹے ہیں۔ امر منی شاعرہ مدھوریما قتل معاملہ میں جیل میں بند ہیں اور امن منی خود بھی بیوی کے قتل کے ملزم ہیں۔ ان کا رجحان بھی بی جے پی کی طرف ہی نظر آ رہا ہے۔
ایسے ماحول میں نریش اگروال کو ساتھ ملا کر بی جے پی نے ان کے بیٹے نتن اگروال کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے جو چوکا مارا تھا، اس کے جواب میں اکھلیش نے راجہ بھیا کو ساتھ ملا کر چھکّا ٹھونک دیا ہے۔
لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ سماجوادی پارٹی نے اپنے سبھی ممبران اسمبلی کو راجیہ سبھا انتخاب ہونے تک لکھنؤ میں ہی رہنے کو کہا تھا۔ ممبران اسمبلی کو متحد کرنے کے لیے لگاتار پروگرام اور دعوتوں کا دور بھی جاری ہے۔ بدھ کو بھی ایک میٹنگ بلائی گئی لیکن خبر ہے کہ اس میٹنگ میں 7 ممبران اسمبلی ندارد تھے۔ اس کے بعد سے سماجوادی پارٹی خیمہ میں ہلچل تیز ہو گئی ہے۔
اکھلیش ڈنر پارٹی کر رہے ہیں تو یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی بدھ کو ہی سب کو چائے پر مدعو کر لیا اور سب سے ملاقات کی۔ چائے کی اس دعوت میں ایس پی کے نتن اگروال بھی پہنچے۔ بی جے پی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ راجیہ سبھا کے لیے ووٹ کیسے دیے جائیں گے، اس کی ٹریننگ دی جا رہی ہے کیونکہ بی جے پی کے تقریباً 200 ممبران اسمبلی نئے ہیں۔
اس درمیان خبر ہے کہ بی ایس پی 22 مارچ یعنی آج جمعرات کو اپنے ممبران اسمبلی کی میٹنگ کرے گی۔ اس دوران پورے دن بی ایس پی کے ممبران اسمبلی مایاوتی کے ساتھ رہیں گے۔ انھیں بھی بتایا جائے گا کہ ووٹ کس طرح دیے جائیں گے؟ ووٹ کسے دِکھانے ہیں اور کسے نہیں، یہ بھی بتایا جائے گا۔ دراصل بی ایس پی کو سیندھ لگنے کا اندیشہ ہے اس لیے ایک ایک ممبر اسمبلی سے مایاوتی خود بات کرنے والی ہیں۔
مجموعی طور پر بساط بچھا دی گئی ہے، مہرے تیار ہیں، صرف اس پر نگاہ رکھنی ہے تاکہ صحیح وقت پر صحیح چال چلی جائے۔ کیونکہ اگر بی ایس پی کا امیدوار جیتتا ہے تو آنے والے وقت میں بی جے پی کے لیے مشکل وقت ہوگا اور اگر بی جے پی 9ویں سیٹ جیتتی ہے تو بی جے پی کے خلاف تیار ہو رہے اپوزیشن محاذ کی مضبوطی کو دھچکا لگے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Mar 2018, 12:29 PM