یو پی اسمبلی انتخابات: آر ایس ایس کے خیمے میں کہرام!… نواب علی اختر
یوگی حکومت نے نفرت کا بازار گرم کرکے اس اسمبلی انتخاب میں بھی ہندو-مسلم کارڈ کھیلنے کی بہت کوشش کی مگر ان کی عوام مخالف پالیسیوں سے پریشان رائے دہندگان نے ایک بھی نہیں سنی۔
اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے ساتویں اور آخری مرحلے میں 7 مارچ کو ووٹ ڈالے جائیں گے ایسے میں اقتدار کے لئے دعویدار مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے تشہیر کے آخری روز تک پوری شدت کے ساتھ مہم چلائی گئی، لیکن حکمراں بی جے پی ریاست میں اپنی ڈگمگاتی کرسی کو بچانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتی نظر آئی۔ انتخابی مہم میں رائے دہندگان کو ڈرانے اور دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ پارٹی کے اراکین اسمبلی رائے ہندگان کو اس راشن کا حوالہ بھی دیتے نظر آئے، جو حکومت نے کورونا بحران کے دوران تقسیم کیا تھا۔ ہر طرح سے رائے دہندگان کو رجھانے کی کوششیں ہوتی رہیں اس کے باوجود بی جے پی عوام کی تائید حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ موجودہ صورتحال سے آرایس ایس کی نیند حرام ہوگئی ہے۔
دوسری طرف حکمرانوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں کا بھی سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس سے پہلے بی جے پی کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی راہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعہ ہموار ہوئی ہے۔ عدالت نے اعتقاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور اس کے لیے ٹرسٹ بھی قائم کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت کے فیصلے کو بی جے پی اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن اترپردیش کے عوام کی بڑی تعداد نے اس ہتھکنڈے کو قبول نہیں کیا اور اسے عدالتی فیصلے کا نتیجہ ہی قرار دیا۔ عوام بی جے پی سے مہنگائی، بیروزگاری، فرقہ واریت جیسے کئی سنگین مسائل پر سوال کر رہے ہیں جن کا جواب دینے سے بھگوا پارٹی بھاگ رہی ہے۔
حیرت تو تب ہوگئی جب وزیر اعظم مودی نے بھی اترپردیش کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے بعد خود ایک عدالتی فیصلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ دنوں عدالت نے احمد آباد سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمہ میں کئی ملزمین کو سزائے موت سنائی اور کچھ کو سزائے عمر قید بھی سنائی گئی ہے۔ عدالت نے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے۔ یہ عدالتی عمل کا حصہ ہے اور اگر کسی کو اس فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم وزیر اعظم نے اس فیصلے کو بھی اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو افسوسناک ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے کہہ دیا کہ احمد آباد میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے لیے جو بم رکھے گئے تھے وہ سائیکل پر رکھے گئے تھے۔
در اصل اترپردیش میں ’سائیکل‘ سے بی جے پی کو بڑی پریشانی ہو رہی ہے۔ انتخابی ریس میں ’سائیکل‘ پوری رفتار کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ سائیکل سماجوادی پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ پہلے وزیر اعظم نے سماجوادی پارٹی کی لال ٹوپی کو نشانہ بنایا تھا جس میں وہ عوام کو ’سائیکل‘ کی سواری کرنے سے نہیں روک پائے، تب انہوں نے سائیکل کو نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے بم دھماکوں کے وقت ہی تہیہ کرلیا تھا کہ ملزمین کو سزائیں دلائی جائیں گی۔ ملک میں کہیں بھی کوئی واردات یا جرم ہوتا ہے تو اس کے خاطیوں کو لازما سزائیں دلائی جانی چاہئیں اور ایسا کرنا پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور فریضہ ہے، یہ حکومتوں کا کارنامہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن وائے ہو ان رہنماؤں پر جو اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے غیر ضروری معاملوں پر بات کر کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انتخابی ماحول میں فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے یا پھر دہشت گردانہ کارروائیوں اور ان پر عدالتوں کے فیصلوں کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کو ہرگز جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم خود اس طرح کی بیان بازی کرتے ہوئے اپنے سیاسی فائدے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے دوسروں کے لیے بھی ایک خراب مثال پیدا ہوگی۔ وزیر اعظم ہوں یا دوسرے قائدین ہوں انتخابات میں سیاسی فائدے کے لیے عدالتی فیصلوں کے استعمال سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک غلط نظیر قائم کرنے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے۔ یہی عدالتوں کا حقیقی احترام بھی ہوگا لیکن موجودہ وقت میں عدالتوں کے حوالے سے جو ماحول پیدا کردیا گیا ہے وہ انتہائی غلط اور تشویشناک ہے۔
مجموعی طور سے دیکھا جائے تو الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کے کچھ چنندہ فارمولے ہیں جن میں فرقہ وارنہ تقسیم، آرمی کی کارکردگی کا اپنی واہ واہی کے لیے استعمال یا پھر آخری حربے کے طور پر کوئی ایسا کام کرنا جس سے عوام کو متاثر کیا جاسکے، جیسے شنکھ، تھالی بجانا، لائٹ اور موبائل جلانا یہاں تک کہ یوکرین سے وطن واپس آئے ہندوستانی شہریوں کا استقبال کرنے کے بہانے ایونٹ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں ایر پورٹ پر وزیراعلیٰ، مرکزی وزراء کا جماوڑا لگ گیا، مگر بی جے پی کا یہ ہتھکنڈا بھی کارگر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ یوپی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بی جے پی نے کیرانہ سے ہندو-مسلم کا شوشہ چھیڑ کر نقل مکانی کا ایشو اٹھانے کی کوشش کی تھی، دفعہ 370 کے ساتھ ساتھ سرجیکل اسٹرائیک کا بھی سہارا لیا، مگر بھکمری کی دہلیز پر کھڑے عوام میں اس کا بھی کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آیا۔ شاید اسی وجہ سے بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے خیمے میں کہرام مچا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا امریکہ پوتن کا حشر صدام جیسا کرے گا!... ظفر آغا
یاد رہے کہ جمہوریت میں جس حکومت نے منمانی دکھائی اور عوام کے حقوق سے چشم پوشی کی، تو وقت آنے پر عوام نے ایسی حکومتوں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ اشارے یوپی اسمبلی انتخاب کے 6 مراحل میں ملے ہیں اور ساتواں مرحلہ بھی اس حکومت کا آخری ایام ثابت ہوسکتا ہے۔ یوگی کی 5 سالہ حکومت میں جہاں بل کے سبب عام لوگ خاص طور سے کسان بھکمری کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے، جس کھیت میں فصل لہلہاتی تھی آج وہاں دھول اڑ رہی ہے، پورا صوبہ آوارہ مویشیوں کے سبب پریشان ہے، وہیں بلڈوزر نے قانون کی دھجیاں اڑائیں، جمہوریت کے دامن کو سیاہ کیا ہے۔ یوگی حکومت نے نفرت کا بازار گرم کرکے اس اسمبلی انتخاب میں بھی ہندو-مسلم کارڈ کھیلنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کی عوام مخالف پالیسیوں سے پریشان رائے دہندگان نے ایک بھی نہیں سنی اور مسائل کی بنیاد پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر کے یہ تاثر دیا کہ اب نفرت نہیں محبت کی فضا ہموار ہو گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔