سپریم کورٹ کے جج کی حق بیانی... نواب اختر
اختلاف کو ملک مخالف اور جمہوریت مخالف قرار دینا آئینی اقدار کے تحفظ اور تبادلہ خیال کرنے والی جمہوریت کو فروغ دینے کے تئیں ملک کی وابستگی کی اصل روح پر چوٹ کرتی ہے۔
ہندوستان میں جب سے ہندوتوا کا ڈھول پیٹنے والی طاقتوں کو اقتدار ملا ہے، جمہوریت کو پامال کرنے والے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ وقتاً فوقتاً عدلیہ اور دیگر سیکولر اداروں کی جانب سے ’بے مہار‘ حکومت کو تنبیہ بھی کی جاتی رہی ہے مگر مرکزی اقتدار پر قابض پارٹی اور اس کے لیڈر خود کو ہی عقل کُل سمجھ بیٹھے ہیں۔
مودی حکومت نے ہندوستانی عوام کے جمہوری حقوق کو خاص کر مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بلکہ ان کی شہریت کو ہی خطرہ پیدا کرنے والی کارروائیاں شروع کی ہیں تو اس ملک کے جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ پچھلے دنوں آئی ایک رپورٹ میں عالمی سطح پر ہندوستانی جمہوریت کی درجہ بندی کچھ گر گئی ہے۔ کچھ وقت پہلے تک ہندوستانی جمہوریت کو اونچا مقام حاصل تھا مگر اب ہماری جمہوریت پہلی مرتبہ 10 پوائنٹ کی کمی کے ساتھ نیچے آ گئی ہے۔ عالمی سطح کے جمہوری ملکوں میں جب ہندوستان کی جمہوریت کی سطح گر گئی ہے تو اس عظیم جمہوری ملک کے عوام کے لیے یہ تشویش کی بات ہے مگر حکمراں طبقہ کو اس کی فکر نہیں ہے۔
مودی حکومت کے پے در پے عوام مخالف فیصلوں نے ہندوستان کو ساری دنیا میں رسوا کیا ہے۔ بابری مسجد کیس میں یکطرفہ فیصلہ، طلاق ثلاثہ بل کی منظوری، کشمیر میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد اب شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سی اے اے کے خلاف گزشتہ دوماہ سے جاری ملک گیر احتجاج نے بھی ساری دنیا کی توجہ اس ملک کی طرف مبذول کردی ہے اور دنیا بھر میں مقیم جمہوریت پسند عوام کو ہندوستان کی جمہوریت اور یہاں کے عوام کی بے بسی پر ترس آنے لگا ہے۔
ہندوستانی جمہوریت کی شان یہ تھی کہ یہاں عوام کو اظہارخیال کی کھل کر آزادی حاصل ہیں۔ کھلے عام حکمراں طبقہ کے خلاف بحث و مباحث ہوتے تھے مگر اب مودی حکومت کے خلاف جو بھی زبان کھولے گا اس کو غدار قرار دیا جائے گا۔ سی اے اے سے آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے غدار قرار دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت اپنے خلاف پیدا ہونے والی ناراضگیوں اور اظہار ناراضگی کو برداشت کرنا نہیں چاہتی۔ ہندوستان کی ایک متحرک پرجوش جمہوریت کو مردہ کرنے والی حکومت کو عوام کے سامنے ایک دن جوابدہ ہونا پڑے گا اور اس دن اسے عوام کے غیض و غضب کا مزہ چکھنا پڑے گا۔
عوام کے اندر نفرت اور غصہ پیدا کرنے والی مودی حکومت کو اب سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے آئینہ دکھاتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اختلاف جمہوریت کا ’سیفٹی وال ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اختلاف کو ایک سرے سے ملک مخالف اور جمہوریت مخالف بتا دینا آئینی اقدار کے تحفظ اور تبادلہ خیال کرنے والے جمہوریت کو فروغ دینے کے تئیں ملک کے عزائم کے بنیادی خیال پر چوٹ کرتا ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے مزید کہا کہ آئین سازوں نے ہندو بھارت یا مسلم بھارت کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے صرف بھارت جمہوریہ کو منظوری دی تھی۔
جسٹس چندر چوڑ نے احمد آباد کے ایک پروگرام میں کہا کہ اختلاف پر کنٹرول کے لئے سرکاری مشینری کا استعمال خوف کا احساس پیدا کرتا ہے جو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف کو ایک سرے سے ملک مخالف اور جمہوریت مخالف قرار دینا آئینی اقدار کے تحفظ اور تبادلہ خیال کرنے والی جمہوریت کو فروغ دینے کے تئیں ملک کی وابستگی کی اصل روح پر چوٹ کرتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جج نے کہا کہ اختلاف کا تحفظ کرنا یہ یاد دلاتا ہے کہ جمہوری طور پر ایک منتخب حکومت ہمیں ترقی اور سماجی رابطوں کے لیے ایک مناسب اوزار فراہم کرتی ہے، وہ ان اقدار اور پہچان پر کبھی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتی جو ہمارے تکثیری معاشرے کی توضیح کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف روکنے کے لئے سرکاری مشینری کو لگانا خوف کا احساس پیدا کرتا ہے اور آزادانہ امن پر ایک خوفناک ماحول پیدا کرتا ہے جو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور تکثیری سماج کی آئینی دور اندیشی سے بھٹکاتا ہے۔ اختلاف کو خاموش کرنے اور لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا ہونا انفرادی آزادی کی خلاف ورزی اور آئینی اقدار کی وابستگی سے آگے تک جاتا ہے۔
جسٹس چندرچوڑ کا یہ تبصرہ ایسے وقت آیا ہے جب شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی شہری رجسٹر (این آرسی) نے ملک کے کئی حصوں میں وسیع سطح پر مظاہروں کو طول دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوال کرنے کی گنجائش کو ختم کرنا اور اختلاف کو دبانا تمام طرح کی پیش رفت سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی، کی بنیاد کو تباہ کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس چندرچوڑ اس بنچ کا حصہ تھے، جس نے اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے معاوضہ وصول کرنے کے ضلع انتظامیہ کی طرف سے مبینہ مظاہرین کو بھیجے گئے نوٹسوں پر ریاستی حکومت سے جواب مانگا تھا۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اختلاف پر حملہ ڈائیلاگ کی بنیاد پر جمہوری معاشرے کے بنیادی خیال پر چوٹ کرتا ہے اور اس طرح کسی حکومت کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی مشینری کو قانون کے دائرے میں واک اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لئے تعینات کرے اور اظہار رائے کی آزادی پر روک لگانے یا خوف کا احساس پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام کرے۔
مشاورت والے ڈائیلاگ کا تحفظ کرنے کا عزم ہر جمہوریت کا، خاص طور پر کسی کامیاب جمہوریت کا ایک لازمی پہلو ہے۔ وجہ اور بحث کے اصولوں سے منسلک جمہوریت کو یقینی بناتا ہے کہ اقلیتوں کے خیالات کا گلا نہیں گھونٹا جائے گا اور اس بات کو یقینی کیا جائے گا کہ ہر نتیجہ صرف اعدادی قوت کا نتیجہ نہیں ہو گا بلکہ ایک مشترکہ عام رائے ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
- supreme court
- Supreme Court Judges
- Citizenship Amendment Act 2019
- Dhananjaya Y. Chandrachud
- Chandrachud
- Anti-National