لیک سے ہٹ کر تلاش کرنا ہوگا کشمیر مسئلہ کا حل
جب کشمیر میں سیاسی عمل شروع کر کے خون خرابہ روکنے کی شدید ضرورت تھی، بی جے پی نے محض سیاسی فائدہ کے لئے محبوبہ حکومت کو گرا کر ایک خطرناک سیاسی چال چلی ہے جس کا خمیازہ کشمیر اور ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
بی جے پی نے اچانک یہ فیصلہ کیوں لیا اس کے بارے میں سبھی سیاسی مبصّرین متفق ہیں کہ2019 کے پارلیمانی الیکشن میں جارحانہ ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کے علاوہ بی جے پی کے پاس اور کوئی متبادل بچا نہیں ہے اپنے چار سالہ دور حکومت میں مودی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام کے درمیان جا سکے ۔
گجرات او رکرناٹک اسمبلی انتخابات کے علاوہ اب تک ہوئے سبھی ضمنی انتخابات میں شکست سے دو چار ہوچکی بی جے پی کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اس کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر پہنچنے کے بعد اب تیزی سے ڈھلنے لگا ہے ، ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے اس کے حلیف بھی ایک ایک کر کے کنارہ کشی کرنے لگے ہیں اس لئے اس کے پاس جارحانہ ہندوتوا کی طرف واپسی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ، کیونکہ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت چلانے کی وجہ سے جارحانہ ہندوتوا کے موضوع پر وہ حزب اختلاف اورمیڈیا کے تیکھے سوالوں کا جواب نہیں دے پا رہی تھی اس لئے کم و بیش چار سال قبل راشٹر ہت (قومی مفاد ) میں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد اس نے اسی راشٹر ہت کے نام پر بنا کسی پیشگی اطلاع بنا کسی سے صلاح مشورہ کے اسی حکومت کو گرا بھی دیا ۔ اطلاعات کے مطابق جموں وکشمیر حکومت گرانے کا فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی پارٹی صدر امت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے درمیان ہوئی میٹنگ میں کیا گیا ، جس سے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تک کوکانوں کان خبر نہیں ہوئی، صلاح مشورہ تو در کنار۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کی رمضان کے مہینہ میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی روکنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا محبوبہ مفتی اسے عید بعد بھی جاری رکھنا چاہتی تھیں لیکن ان کی کابینہ میں بی جے پی کے وزراء اور خود مرکزی حکومت اس کے لئے رازی نہیں ہوئی تو محبوبہ مفتی مستعفی ہونے پر غور کرنے لگی تھیں ، جس کی بھنک بی جے پی کے لیڈروں کو لگ گئی، جس کے بعد محبوبہ مفتی کو آؤٹ اسمارٹ کرنے کے لئے مودی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ۔ وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو اس سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ دونو پارٹیاں ایک دوسرے سے سیاست کر رہی تھیں دونوں میں زمینی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک باہمی اعتماد کا شدید فقدان تھا محض اقتدار کے لئے دونوں پارٹیاں ساتھ ساتھ تھیں، اسی بد اعتماد ی کی وجہ سےریاستی انتظامیہ مفلوج ہو چکی تھی، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی وادی میں اور بی جے پی جموں میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی دونوں کو لگنے لگا تھا کہ یہ بے میل کھچڑی آیندہ الیکشن میں انھیں بہت مہنگی ثابت ہوگی، اس لئے دونوں جلد سے جلد ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانا چاہتےتھے، لیکن بی جے پی بازی مار لے گی۔
مرکز میں مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے ہی پاکستان اور کشمیر کو لے کر ایک ڈھلمل پالیسی کی وجہ سے وہاں کے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوئے آخرکار بے قابو ہو چکے ہیں بی جے پی کی نظر صرف ہندی بیلٹ میں ووٹوں پر رہتی ہے اور وہ اپنے سخت گیر ہندوتو وادی ووٹوں کے لئے ان دونوں محاذوں پر قومی مفاد کے بجائے اپنے نظریہ کے حساب سے کام کر رہی ہے، جس میں دہشت گردی سے جنگ کے نام پر گولی کا جواب گولی سے دینے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ اٹل جی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زمانہ کی زخموں پر مرہم رکھنے کی پالیسی کو خیر باد کہہ دیا گیا ، جس کا فائدہ سرحد پر بیٹھے ہندستان کے دشمنوں نے اٹھایا اور وہ کشمیر کے نوجوانوں کو ورغلانے میں کامیاب رہے ۔
مودی حکومت آنے سے پہلے کشمیر تقریباً پر سکون ہو گیا تھا معمولات زندگی پٹری پر آ گئے تھے ، سیاحوں کی آمد بڑھ گئی تھی یہاں تک کی فلم انڈسٹری پھر سے اس طرف رخ کرنے لگی تھی، دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہی ہوتے تھے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا اور آج حالات یہ ہیں کہ پوری وادی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے فوج اور نیم فوجی دستوں کی سختیاں بھی انتہا پر ہیں اور پتھر بازوں کا پتھراؤ بھی ان سختیوں سے بے خطر جاری ہے، ایک نام نہاد پتھر باز کو فوجی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر تیس پینتیس کلو میٹر تک گھمانا ہو یا ایک دیگر کشمیری کو جیپ سے کچل کر مار ڈالنا ہو ، یہ تصویریں جب وائرل ہوتی ہیں اور ٹیلی ویژن پر جب ان کو لے کر احمقانہ اور فر قہ وارانہ بحث کی جاتی ہیں،؎تو ہندی بیلٹ کے سخت گیر ہندوتو وادی عناصر کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور بی جے پی کا ووٹ بنک مضبوط ہوتا ہے ، لیکن وادی کے نوجوانوں میں فوج ، نیم فوجی دستوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندستان اور یہاں کے عوام کو لے کر نفرت اور بد دلی بڑھتی جاتی ہے، جس کا فائدہ وہاں کے علیحدگی پسند عناصر اٹھا رھے ہیں ، آج زمینی حقیقت یہ ہے کہ وادی کے عوام نہ صرف ہندوستانی فوج ، ہندستانی حکومت بلکہ ہندستانی عوام تک سے بدزن ہوچکے ہیں ، انھیں ایسا لگتا ہے کہ ہندستان کو کشمیر کی زمین تو چاہئے لیکن کشمیر کے عوام نہیں ۔
بی جے پی کی جانب سے محبوبہ مفتی کی حکومت گرانے کے بعد سے ہی سیاسی مبصرین دو باتوں پر متفق ہیں اول 2019 کے عام انتخابات میں سخت گیر ہندوتوا کے موضوع پر الیکشن لڑنا ، دوم وادی میں فوج اور سیکورٹی دستوں کو کھلی چھوٹ دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اور شدید کرنا۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب سلامتی دستے ایک دہشت گرد یا ایک پتھر باز مارنے کے نام پر چار بے گناہ کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتاریں گے، ظاہر ہے تشدد اور جوابی تشدد کے اس ماحول میں کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائےگی ، دراصل یہ سرحدپار بیٹھے ہندوستان دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے ، لیکن تنگ نظر فرقہ پرست عناصر کی شیطانی جبلت اسی سے خوش ہوتی ہے، یہ بی جے پی کے لئے سیاسی طور سے فائدہ کا سودا ہو سکتا ہے لیکن ملک اس کی بہت بڑی قیمت چکا ئے گا۔
جب جب کشمیر میں تشدد کے واقعات بڑھتے ہیں تو حکومت ہند سیاسی عمل شروع کرنے کی بات کرتی ہے ، لیکن یہ مہم آج تک ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکی ہے، ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے دور میں تین رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس کی رپورٹ سرکاری فائلوں میں دبی پڑی ہے ، موجودہ حکومت نے بھی ایک صاحب کو بچولیا مقرر کیا ہے انہوں نے کوئی حتمی رپورٹ ابھی پیش نہیں کی ہے لیکن وہ بھی سیاسی عمل کو ہی آگے بڑھانے کا مشورہ دے رہے ہیں، اب ان مشوروں پر عمل کرنا حکومت ہند کا کام ہے جس پر ہر بار سرد مہری کے بادل چھا جاتے ہیں ، فوج بھی کہتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کا خاتمہ تو کر سکتی ہے لیکن وادی میں امن سیاسی عمل کے آگے بڑھانے سے ہی قائم ہوگا ۔
ضرورت ہے کی سیاسی فائدہ نقصان کے ریاضی کو ترک کر کے ملک کے عظیم تر مفاد میں کشمیر مسئلہ کاحل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے ، اس کے لئے گھسے پٹے راستہ پر چلنے کے بجائے لیک سے ہٹ کر بھی چلنا پڑے تو تمام اعتراضوں اور نکتہ چینیوں کو نظر انداز کر کے اس پر چلنا ہوگا، وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی طاقت کو دیکھتے ہوئے اس عمل کے لئے وہ سب سے مناسب وزیر اعظم تھے ، لیکن سیاسی ریاضی اور پارٹی مفاد سے بلند ہو کر وہ یہ سوچ ہی نہیں پائے کرنا تو دور کی بات ۔
اب بھی موقعہ ہے وہ اپنی نظریاتی اور سیاسی سوچ بدلتے ہوئے کشمیری عوام کے ہر طبقہ کو گفتگو میں شامل کریں ، ان میں مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ حریت کانفرنس کو بھی شامل کیا جائے ، اس کے ساتھ ہی کشمیری عوام میں ملک سے الگ تھلگ پڑ جانے کا جو احساس پیدا ہو گیا ہے، ان میں جویہ سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ ہندستان کو کشمیر کی سرزمین چاہئے عوام نہیں، اسے بدلنے کے لئے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں ایک ایسا کندھا فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس پر سر رکھ کر وہ اپنا غم ، اپنی تکالیف بھلا سکیں ، انھیں اب ہمدردی کت ساتھ دلجوئی کی ضروت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔