مودی کے 3 مہرے عآپ، ایم آئی ایم اور این سی پی
الیکشن کمیشن بھلے ہی گجرات انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہ کرے مگر گجرات اسمبلی میں سیاسی کھلاڑیوں نےاپنی اپنی بساط بچھا لی ہیں اورچالیں چلنی شروع کر دی ہیں۔ کسی پارٹی کے پیادوں نے ابھی صرف دم بھرا ہے تو کسی کےگھوڑے نے اپنی ڈھائی چال چلنی شروع کر دی ہے، کسی کا ہاتھی سونڈ اٹھائے تیار کھڑا ہے تو کوئی اپنے اونٹ کو جنگ کے میدان میں اتارنے کی تیاری کر رہا ہے ۔
کانگریس نے اپنی پہلی ڈھائی چال چل دی ہے اور الپیش کو میدان میں لے آئی ہے ۔ہاردک نے اپنی سونڈ اٹھاکر اعلان کر دیا ہے کہ اس کا راستہ بالکل سیدھا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کی شکست ہونی چاہئے اوراس مقصد کے لئے وہ دونوں طرف سیدھے چل کر اپنے دشمن کو روندنے کے لئے تیار ہے ۔ جگنیش میوانی کی نظریں اپنے اونٹ پر ہیں اور وہ بھی بی جے پی کو ہرانے کے لئے اپنے اونٹ کو کچھ (گجرات کا علاقہ کچھ)کے میدان میں لے جانے کی تیاری کر چکا ہے اور ریگستان میں بھی اپنے اونٹ کو دوڑانے کے لئے تیار ہے ۔ وزیر اپنا کام کر رہا ہے اور کیونکہ کانگریس نے پہلے چال چل دی ہے اس لئے اب سامنے اقتدار پر بیٹھی بی جے پی اپنے پیادوں ، ہاتھی ، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ جواب دینے کے لئے جلد میدان میں اترے گی اور اس کی کوشش ہوگی کہ وہ کانگریس کی ہر چال کا جواب دے ۔ بی جے پی کے لئے بس ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس اس کو مقابلہ دیکھ رہی عوام کو دینے کے لئے کوئی نئی چال نہیں ہے کیونکہ یہ عوام گزشتہ 22برس سے اس کا کھیل دیکھ رہی ہے اور اب اتنے لمبے عرصے کے بعد اس کی تمام چالوں کو پوری طرح سمجھ چکی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ بی جے پی کوئی واک اوور دے رہی ہے ۔ بی جے پی پورا مقابلہ کرے گی اور ہر وہ چال چلے گی جس سے کانگریس کا گھوڑا چت ہو جائے ، کانگریس کا ہاتھی گڈھے میں گر جائے اور اس کااونٹ صحرا میں اپنی منزل سے بھٹک جائے ۔ لیکن بی جے پی کی ایک اور بڑی مجبوری یہ ہے کہ جن گھوڑوں، اونٹوں اور ہاتھی کے دم پر وہ کانگریس کے مہروں کو ہرانا چاہتی ہے ان کو بھی بی جے پی کے خلاف ہی بولنا پڑے گا جو بی جے پی کے خلاف ماحول کو اور گرم کر سکتا ہے ۔ بی جے پی چاہے گی کہ ان مہروں کےذریعہ اس کے خلاف ہونے والی ناراضگی تقسیم ہو جائے اور وہ کم ووٹ حاصل کرنے کے بعدبھی گجرات کی گدی بچانے میں کامیاب رہے۔
حالات سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گجرات انتخابات میں بی جے پی کے پاس جو مہرے ہیں وہ ہیں اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم، کیجریوال کی پارٹی عآ پ اور شرد پوار کی این سی پی۔ ایم آئی ایم بہار میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے اور مسلمانوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہیں ہوناچاہئے جس کا ایک اور واضح ثبوت نانڈیڑ میونسپل الیکشن میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ کیجریوال کی پارٹی وہیں انتخابات لڑتی ہے جہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہوتی ہے تاکہ حکومت کے خلاف ناراضگی کا ووٹ تقسیم ہو جائے اور بی جے پی کو فائدہ ہو جائے ۔ وہ گجرات میں چناؤ لڑتی ہے مگر ہماچل میں نہیں لڑتی، وہ پنجاب میں تو چناؤ لڑتی ہے مگر ہریانہ، اتر پردیش، اتر اکھنڈ اور کرناٹک میں چناؤ نہیں لڑتی تاکہ حکومت کے خلاف ووٹ صرف بی جے پی کو ملے اور ووٹ تقسیم نہ ہو تاکہ غیر بی جے پی حکومت کو فائدہ نہ ہو سکے۔ عآ پ کو جو بھی ووٹ ملے گا اس کا فائدہ بی جے پی کو تو ہوگا مگر کتنا ہوگا کیونکہ پنجاب اور گووا میں اس پارٹی کا نقاب اتر چکا ہے ۔ یعنی عآ پ کے غبارے کی ہوا کم و بیش نکل چکی ہے ۔ ادھر این سی پی نے جس طرح مودی مخالف آواز بلند کرنی شروع کر دی ہے اور پٹیلوں کو پارٹی سے ٹکٹ دینے کی بات شروع کر دی ہے اس سے تویہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ پاٹیدار ووٹ تقسیم ہو جائے تاکہ پاٹیداروں کی ناراضگی ایک جگہ نہ جمع ہو جائے۔ یہ تین مہرے ہیں جن کے بل بوتے پر بی جے پی کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی ۔
گجرات میں مودی اور شاہ کی نیا اگر کوئی پار لگا سکتا ہے اور کانگریس کو مات دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف یہ تین مہرے ہیں۔ اگر شاہ ان مہروں کو صحیح وقت پر چل گئے تو بی جے پی کو گجرات میں کچھ نظر آ سکتا ہے البتہ گجرات میں حکومت کے خلاف زبردست ناراضگی ہے ۔ہمیں یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بی جے پی کہ پاس گجرات میں اب مودی کا چہرا نہیں ہے اور گجراتیوں نے مودی کو وزیر اعظم بنا کر بھی دیکھ لیا اور ان کو احساس ہے کہ مودی کو وزیر اعظم بناکر گجراتی عوام کو کچھ نہیں ملا۔گجرات انتخابات مودی اور شاہ کی قسمت کا فیصلہ بھی کریں گے اور ان دونوں کی قسمت کی چابی اویسی، کیجریوال اور پرفل پٹیل کے ہاتھ میں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Oct 2017, 5:34 PM