لاک ڈاؤن یا خاک ڈاؤن؟... اعظم شہاب

وزرائے اعلیٰ کی ویڈیو کانفرنسنگ میں وزیراعظم کا منہ ڈھانپ کر آنا حسب معمول ایک مضحکہ خیز حرکت تھی، لیکن اب ہندوستان کے عوام اس طرح کی نوٹنکی کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں بھی اس کے بغیر مزہ نہیں آتا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع تقریباً ہوچکی ہے، لیکن اگر پہلے مرحلے کے لاک ڈاؤن کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس مرحلے میں ہمارے ہارڈ ورک والے پردھان سیوک نے جتنا زور اپنی مقبولیت کو چیک کرنے پر صرف کیا، اگر اس کا عشرہ عشیر ہی اس بلا کو روکنے پر صرف کرتے تو صورت حال اس قدر بھیانک نہیں ہوتی۔ گوکہ پردھان سیوک نے لاک ڈاؤن کی توسیع کاعندیہ دیدیا ہے، مگر کرونا کا عتاب ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 30 جنوری کو کورونا کا پہلا معاملہ سامنے آیا اس کے بعد 29 فروری تک صرف 3 مریضوں کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 30 مارچ تک 1326 نئے مریض سامنے آئے اور یکم اپریل سے 12 اپریل تک کل تعداد 8505 تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی 7179 نئے معاملات سامنے آچکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا ہے کہ یہ لا ک ڈاؤن 14 اپریل کو ختم ہوجاتا تو خام خیالی ہی قرار پاتا۔

اپنی روایت سے ہٹ کر وزیر اعظم ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ رائے مشورہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے لاک ڈاؤن سے قبل جب لوگوں سے مشورہ کرکے منصوبہ بندی اور تیاری کی ضرورت تھی اس وقت تو آؤ دیکھا نہ تاؤ بس اعلان فرما دیا، اور اب جبکہ کوئی متبادل ہی موجود نہیں ہے، مشورہ کرنے کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ وزیر اعظم اس بار فیصلہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری وزرائے اعلیٰ کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ کی ویڈیو کانفرنسنگ میں وزیراعظم کا منہ ڈھانپ کر آنا حسب معمول ایک مضحکہ خیز حرکت تھی، لیکن اب ہندوستان کے عوام اس طرح کی نوٹنکی کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں بھی اس کے بغیر مزہ نہیں آتا۔


وزرائے اعلیٰ کی ویڈیو کانفرنس میں وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کو سب سے پہلے اپنی ریاست کی صورتحال رکھنے کا موقع ملا۔ کیونکہ کورونا کے معاملے میں مہاراشٹر سرِ فہرست ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹر کے اندر کثیر تعداد کی وجہ بڑی تعداد میں ٹسٹ کیا جانا بتایا ہے۔ اب تک مہاراشٹر میں جملہ32 ہزار51 ٹسٹ میں سے 1574 نمونے مثبت اور 30 ہزار 477 منفی ہیں۔ 188 مریضوں کو علاج کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں مہاراشٹر کا موازنہ دیگر ریاستوں سے کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ جہاں کم لوگوں کی جانچ کرائی جائے گی وہاں مریضوں کی تشخیص کیسے ممکن ہوگی؟ وزیر اعظم سے بات چیت کے بعد ان کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے 30 اپریل تک لاک ڈاؤن بڑھانے کا فیصلہ کردیا، کیونکہ ممبئی سمیت کچھ شہروں کی صورتحال ابھی قابو میں نہیں ہے۔ وزرائے اعلیٰ کی اس ویڈیو کانفرنس میں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ وزیر داخلہ انیل دیشمکھ، وزیر صحت راجیش ٹوپے، وزیر ماحولیات آدتیہ ٹھاکرے اور پرنسپل سکریٹری اجے مہتا موجود تھے۔

مہاراشٹر میں کورونا سے متاثرین کی تعداد میں اضافے کو پورے ملک میں تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ لیکن اس اضافے کی وجہ کو قطعاً نظر انداز کردیا جارہا ہے کہ مہاراشٹر نے اپنی ٹیسٹنگ کی اہلیت میں دیگر ریاستوں کی بہ نسبت خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ مہاراشٹر میں یومیہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں جبکہ مدھیہ پردیش میں یہ اہلیت ابتداء میں 480 تھی اور اب جاکر یہ ایک ہزار تک پہنچی ہے۔ اسی طرح دیگر ریاستوں کی مجموعی ٹیسٹنگ صلاحیت ایک ہزار سے زائد نہیں ہے۔ ایسی صورت میں لازماً انہیں ریاستوں میں متاثرین کی تعداد بڑھے گی، جہاں زیادہ ٹیسٹ ہوں گے۔


مہاراشٹر میں تو خیر کورونا کی جنگ وزیراعلیٰ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر لڑ رہے ہیں ،لیکن مدھیہ پردیش کی حالت دگر گوں ہے۔ وہاں پر کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے کمل ناتھ کے ساتھ سرجوڑ بیٹھنے کے بجائے بی جے پی کے حریص رہنماؤں نے سرکار گرا کر رام راجیہ لانے کے نام پر عوام کو رام بھروسے کردیا اور اپنی ساری توانائی ارکان اسمبلی کو توڑنے اور انہیں اغواء کر کے یرغمال بنانے میں صرف کردی۔ ملک میں دیش بندی کے نافذ ہونے سے قبل ماما جی نے، ہاں وہی شیوراج چوہان جی نے اپنی حلف برداری تو کرادی لیکن وزراء کو نامزد کرنے سے قبل کورونا کے قہر کا شکار ہوگئے۔

اب حال یہ ہے کہ وہ تنہا کورونا کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ آج بی جے پی کے آدرش راجیہ مدھیہ پردیش کی حالت یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کو نوٹس جاری کرنا پڑا ہے کہ حکومت لوگوں کی جانوں سے کھلواڑ بند کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں کورونا پر قابو پانے کے لیے حکومت نے جو ٹیم بنائی تھی، وہ خود ہی قرنطینہ میں چلی گئی ہے جس میں سے کئی لوگوں کی رپورٹ مثبت بھی آچکی ہے۔


دراصل شیوراج سنگھ چوہان صاحب، پردھان سیوک کے سوشل ڈیسٹنسیگ کی اپیل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے سیکڑوں حامیوں کی موجودگی میں حلف تو لے لیا تھا، لیکن اس سے قبل کہ وہ وزارت کی ریوڑی تقسیم کرتے، کورونا کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ سابقہ کمل ناتھ حکومت نے جس ہیلتھ آفیسر کا تقرر کیا تھا، اسے محض اس لیے اس کے عہدے سے ہٹادیا گیا کہ اس کا تعلق کمل ناتھ حکومت سے تھا۔ ماماجی نے خود ہی پوری کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنے تمام محکمہ جاتی افسران کے ساتھ بغیر کسی حفاظتی فاصلے کو قائم رکھے میٹنگیں لینی شروع کردیں۔

11مارچ کی شام تک مدھیہ پردیش میں کل532 مریضوں کی تشخیص ہوچکی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد40 پر پہنچ گئی ہے۔ پچھلے ایک دن میں چار نئے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ قومی سطح پر مدھیہ پردیش فی الحال چوتھے نمبر پر ہے۔ اعدادو شمار کو غور سے دیکھیں تو ظاہر ہے کہ ملک کے 45 فیصد مریض صرف دس بڑے شہروں میں ہیں اور مرنے والوں کی 65 فیصد تعداد بھی انہیں شہروں سے آتی ہے۔ اس فہرست میں جہاں مہاراشٹر کے تین شہر موجود ہیں وہیں مدھیہ کے دو شہر بھوپال اور اندور ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مدھیہ پردیش کی حالت یہ ہے کہ ریاستی حفظان صحت کے شعبے کے کم ازکم 32 لوگ کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں۔


اپریل کے پہلے ہفتے میں اس کا انکشاف ہوگیا تھا اس کے باوجود ماماجی نے انہیں قرنطینہ میں بھیجنے کے بجائے مختلف نشستوں میں شرکت سے نہیں روکا اور اس کے سبب نہ جانے کتنے لوگوں تک یہ بیماری پھیلی۔ فی الحال ہیلتھ کمشنر فیض احمد قدوائی اور ایڈیشنل چیف سکریٹری انوراگ جین قرنطینہ میں ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن اس پر کارروائی کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس میں صفائی مانگی گئی ہے کہ غیر ملکی سفر سے واپس ہونے والے رشتے داروں سے رابطے کے باوجود اعلیٰ سرکاری افسروں کو کووڈ پوزیٹو ہونے کے باوجود اسپتال بھیجنے میں تاخیر کیوں ہوئی۔ اس سنگین معاملے میں اگر خود سرکار اس طرح کی مثال قائم کرے گی تو عوام کو کس طرح روکے گی؟ لیکن بی جے پی کی کتھنی اور کرنی کا یہ تضاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔