اکثریتی طبقہ بھی اقلیتی درجہ کی تگ و دو میں

ہندوستان کے الگ الگ صوبوں میں برادریوں کی حیثیت اور تعداد مختلف ہے۔ ایسے میں قومی سطح پر ایک زبان بولنے والوں یا مذہبی طبقے کو اکثریت یا اقلیت قرار دینا بعض صورتوں میں انصاف کا مذاق بنا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

نواب علی اختر

مرکز کی مودی حکومت کی طرف سے حال ہی میں سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ جن ریاستوں میں ہندوؤں کا تناسب کم ہے، وہاں کی حکومتیں انہیں اقلیت قرار دے سکتی ہیں۔ مرکز کے اس جواب کے بعد سماج میں عدم اطمینان محسوس کیا جا رہا ہے۔ بتادیں کہ ہندوستان میں مذہب مذہبی عقائد و اعمال کے تنوع کی خصوصیات رکھتا ہے۔ آئین میں 1976ء میں کی جانی والی 42 ویں ترمیم کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے، اس سب کا مطلب ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے گی۔ ہندوستان کئی بڑے مذاہب کا پیدائشی وطن ہے، یعنی مسلمان، ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں مذہب ملکی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں ملک میں بذریعہ قانون اور رسوم کے قائم ہوئے۔ ہندوستان کا آئین صاف الفاظ میں مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتا ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی چند روزقبل ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کے مطالبے سے متعلق ایک معاملے میں واضح کیا کہ ملک میں مذہبی اور لسانی برادریوں کی اقلیتی حیثیت کے سوال کا فیصلہ ریاستی سطح پر کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک کے الگ الگ صوبوں میں ان برادریوں کی حیثیت اور تعداد مختلف ہے۔ ایسے میں قومی سطح پر کسی ایک زبان بولنے والوں یا مذہبی طبقے کو اکثریت یا اقلیت قرار دینا بعض صورتوں میں انصاف کا مذاق بنا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی مراٹھی بولنے والا شخص مہاراشٹر میں لسانی طور پر اکثریتی برادری کا رکن ہوتا ہے لیکن دہلی آنے پر وہی شخص اقلیتی برادری کا رکن ہو جاتا ہے۔ مذہبی برادریوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ بودھ، سکھ وغیرہ کو تو چھوڑ دیں، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے کہ ملک کے کئی صوبوں میں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مثال کے طور پر میزورم میں ہندوؤں کی آبادی 2.75 فیصد، ناگالینڈ میں 8.74 فیصد اور میگھالیہ میں 11.52 فیصد ہے۔


اگر مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دیکھا جائے تو کئی علاقوں میں یہ تعداد اس سے بھی کم ہے۔ مثال کے طور پر لداخ میں یہ تعداد صرف 1 فیصد، لکشدیپ میں 2.77 فیصد اور کشمیر میں 4 فیصد ہے۔ ہندوستان جیسے ہندو اکثریتی ملک کے مختلف حصوں میں ہندوؤں کی نہ ہونے کے برابر موجودگی ہمارے تنوع کا زندہ ثبوت ہے۔ ساتھ ہی یہ اکثریت اور اقلیت کا تعین ریاستی سطح پر کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے لیکن اس سے آگے مذہبی اور قانونی پیچیدگیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ سوال لیا جائے کہ کسی برادری کو اکثریت یا اقلیت کا درجہ دینے کا حق کس کے پاس ہے، تو مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کے دیگر معاملات میں واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ یہ حق اس کے پاس ہے۔ اسی طرح اگر آبادی کے کم یا زیادہ تناسب کی بنیاد پر ہندوؤں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایت کی جائے تو اس کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہے۔

شاید اسی لیے سپریم کورٹ نے ہندوؤں کو اقلیت کا درجہ دینے سے متعلق درخواست گزاروں کے دلائل پر کہا کہ جب تک ایسے ٹھوس معاملے سامنے نہیں آتے، ان دعوؤں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ظاہر ہے اس معاملے میں آسانی سے کام نہیں چلے گا۔ بہرحال یہ معاملہ اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس دوران اس سے متعلق تمام پیچیدہ پہلو سامنے آئیں گے اور ان پر تمام متعلقہ فریقوں کی رائے بھی سامنے آئے گی۔ فی الحال یہ ضرور واضح ہو گیا ہے کہ اقلیتی درجہ اور اس سے متعلق حقوق کے سلسلے میں قانونی مسائل کو ’عام فہم‘ کی بنیاد پر حل نہیں کیا جا سکتا اور کم از کم اب اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آبادی میں مخصوص کمیونٹی کے تناسب کا تعین کرنے کا کام ریاستی سطح پر ہی ہونا چاہیے۔


اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ہندوستان مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کا گہوارا رہا ہے۔ اس کا ایک اجتماعی معاشرہ ہے۔ یہ امن، میل جول، بھائی چارہ، اخوت، اتحاد اور یگانگت کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ مختلف کوہ پیکر ہستیوں جیسے گوتم بدھ، مہاویر، گرونانک، مہاتما گاندھی، کبیر، جواہر لال نہرو، راجہ رام موہن رائے، ایشور چندر ودیا ساگر، ڈاکٹر بی آرامبیڈکر، رابندرناتھ ٹیگور، مولانا حسین احمد مدنی، قاضی نظر الاسلام، سوامی وویکا نند، نیتا جی سبھاش چندر بوس، ٹیپو سلطان، مولوی محمد باقر، مولانا حسرت موہانی، خان عبد الغفار خان، مولانا محمد علی جوہر، سرسید احمد خان، ڈاکٹر ذاکرحسین، مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی وغیرہ کی جائے پیدائش ہے۔

ان سبھی روشن میناروں نے اپنے اپنے عہد میں بھائی چارہ اور اخوت کا درس دیا ہے۔ وہ آج نہیں ہیں لیکن ان کی ہدایات اور ان کے پیغامات آج بھی اس سرزمین پر پرامن زندگی گزارنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ ہندوستان ایک قابل ذکر جمہوری ملک ہے، اسے اقلیتوں کا وفاق بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے دستور میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق، آزادی، وجاہت اور انصاف کی ضمانت دی گئی ہے۔ نسل، مذہب،علاقہ کے نام پر تعصب اور امتیاز کی نفی کی گئی ہے۔ جمہوریت، روادری اور سیکولرزم یعنی غیر مذہبی جانب داری کو حکومت کا سنگ بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہ بجائے خود اقلیتوں کے ساتھ، تنگ نظری، امتیاز، تعصب اور تشدد کے رویہ کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ دستور میں خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی اور تعلیمی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔


مذکورہ حقائق کے باوجود پچھلے کچھ سالوں میں ایک ایسے تنگ نظر گروہ نے اچانک سر اٹھایا ہے جو وطن عزیز میں وقتاً فوقتاً ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دلانے کا شوشہ چھیڑ کر ایک نئی بحث شروع کر دیتا ہے۔ اس گروہ کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے نام پر مسلمانوں کو خاص سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن پرخود ساختہ راشٹر بھکتوں (ہندوؤں) کا حق ہے۔ جب کہ دنیا جانتی ہے کہ مسلم دور حکومت میں ہندوستان سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ اس وقت مسلم حکمرانوں کے ذریعہ قائم کئے گئے تاریخی مقامات اورعمارتوں سے حاصل ہونے والی دولت سے آج بھی سرکاری خزانہ گلزار ہے اور اس خزانے پر مسلمانوں کو پورا حق ہے مگر نام نہاد راشٹر بھکتوں کو خوش کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے اقلیتوں کو ملنے والی بیشتر سہولیات ختم کر دی ہیں اور جو ہیں بھی تو وہ کاغذوں تک محدود ہیں، زمین پر ان کا کوئی نام ونشان نہیں چھوڑا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔