مودی کو اس شرمناک اور بیہودہ بیان کے لیے ملک سبق ضرور سکھائے گا... ظفر آغا

پی ایم مودی نے آنجہانی راجیو گاندھی کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تو بھلے ہی یہ بے حد شرمناک اور بیہودہ تھا، لیکن کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ مودی سے پہلے کوئی بھی پی ایم اس قدر نیچے نہیں گرا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

آج سے 28 سال پہلے 21 مئی 1991 کو راجیو گاندھی کا قتل ہوا تھا۔ اس کے بعد 15 سال بعد عدالت نے انھیں بوفورس معاملے میں بری کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ ان پر ایک بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن پھر بھی وزیر اعظم نریندر مودی سبھی حدوں کو طاق پر رکھ کر انھیں ’بدعنوان نمبر 1‘ کا نام دیتے ہیں۔

مودی حکومت نے بوفورس کیس دوبارہ کھولنے کی کوشش کی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اس سے انکار کر دیا تھا کیونکہ سی بی آئی 16 سال تک جانچ کرنے کے بعد بھی سابق وزیر اعظم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں جمع کر پائی۔ اتنا ہی نہیں، موجودہ وزیر مالیات اور وکیل کو اس معاملے میں ثبوت جمع کرنے کے لیے یوروپ تک بھیجا گیا، لیکن وہ بھی خالی ہاتھ ہی لوٹے۔ پھر بھی مودی کو بوفورس میں ایک بدعنوانی نظر آتی ہے۔ دراصل یہ سب صرف سیاست کے لیے کیا جا رہا ہے۔ دھیان رہے کہ واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔


میں نے راجیو گاندھی کو ان کی سیاسی زندگی میں کافی نزدیک سے دیکھا ہے۔ وہ ایک شریف اور دوسروں کو عزت دینے والے شخص تھے۔ وہ ایسے شخص تھے جن سے ہر کوئی بار بار ملنا چاہے گا۔ کانگریس صدر کے طور پر 1984 میں اپنے پہلے لوک سبھا انتخاب میں 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے بعد ان کی انکساری میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ محض 41 سال کی عمر میں سب سے نوجوان وزیر اعظم بننے کا ان کو کسی طرح بھی غرور نہیں تھا۔

1989 لوک سبھا انتخابات کے شروعاتی دور میں ان کے سیاسی مخالفین نے ان پر الزام لگانا شروع کر دیا تھا۔ ان انتخاب کی تشہیر میں انھیں بدنام کیا گیا۔ پھر بھی انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک بھی نازیبا الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔ 1989 کے انتخابات میں ہارنے کے بعد بھی انھوں نے نرمی کے ساتھ شکست کو قبول کیا۔


سابق صدر آر وینکٹ رمن نے سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے انھیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر حکومت بنانے سے انکار کر دیا کہ اس بار کا ووٹ موٹے طور پر ان کے خلاف ہے۔ راجیو گاندھی نے اس موقع پر جو قدم اٹھایا، وہ شاید ہی کوئی دوسرا لیڈر کر پاتا۔ اس حالت میں اگر نریندر مودی ہوتے تو سب کو اندازہ ہے کہ وہ کیا کرتے! وہ لپک کر اس موقع کو پکڑتے اور اقتدار میں بنے رہنے کے لیے کوئی تکڑم آزمانے سے باز نہیں آتے۔

راجیو گاندھی صرف ایک نرم مزاج لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ ہندوستان میں اگر تکنیکی اور مواصلاتی انقلاب آیا ہے تو یہ راجیو گاندھی کی ہی سوچ تھی۔ راجیو گاندھی کو ملک کو 21ویں صدی میں ایک جدید، ترقی پذیر اور حوصلہ مند قوم کی شکل میں لے جانے کا جنون تھا۔ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ 21ویں صدی میں کمپیوٹر بہت اہم کردار نبھانے والا ہے۔ اس لیے انھوں نے بغیر وقت گنوائے اپنی پوری توانائی لگا کر لوگوں کو اس مشین کے استعمال کے لیے تیار کیا۔ دیکھتے دیکھتے کمپیوٹر نے پوری دنیا میں لوگوں کی زندگی پر اثر کرنا شروع کر دیا۔


راجیو گاندھی کو نجی اور سیاسی دونوں ہی طرح سے کمپیوٹر کے ذریعہ لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ لیکن انھوں نے کسی کی نہیں سنی۔ ان کے ناقدین نے انھیں ’کمپیوٹر بوائے‘ تک کہنا شروع کر دیا تھا، لیکن راجیو جانتے تھے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ملک کے لیے ضروری ہے۔

راجیو گاندھی بہت معصوم تھے، اور ہر کسی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے تھے۔ ان کے کئی ’دوستوں‘ نے انھیں دھوکہ دیا۔ لیکن انھوں نے کسی سے کوئی بیر نہیں رکھا۔ وہ ایک الگ قسم کے انسان تھے جو دوستوں کی فکر کرتے تھے، جو ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ان کی شکایت نہیں کرتے تھے۔


میں ’قومی آواز‘ کے قارئین کو بتاتا چلوں کہ راجیو گاندھی کو اپنے قتل کا بھی اندازہ تھا۔ انھیں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات نے خود اپنے سفیر ڈاکٹر خالد الشیخ کے ذریعہ پیغام بھجوایا تھا کہ راجیو گاندھی کے قتل کے لیے ایل ٹی ٹی آئی کے دہشت گرد ہندوستان پہنچ چکے ہیں۔ راجیو گاندھی نے اپنی سیکورٹی کے لیے اس وقت کی حکومت سے کہا تھا، لیکن حکومت نے ان کی نہیں سنی۔ اور آخر کار ایک نرم مزاج لیڈر کا ان کے سیاسی زندگی کے آغاز میں ہی ایل ٹی ٹی ای کے دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔

لیکن، موجودہ وزیر اعظم اپنے پہلے کے وزیر اعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر گجرات میں غیر بی جے پی حکومت بنانے کی سازش تیار کر رہے ہیں۔ مودی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا اس بات کے لیے مذاق اڑایا کہ سرحد پار پہلے بھی فوجی آپریشن ہوتے رہے ہیں، لیکن ان پر کبھی سیاست نہیں کی گئی۔


مودی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے آپریشن اے سی کمروں میں بیٹھ کر کاغذ پر کیے گئے ہوں گے۔ لوگوں کو مودی کے ذریعہ پارلیمنٹ میں دی گئی وہ تقریر یاد ہوگی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’منموہن سنگھ کی خوبی یہ ہے کہ وہ باتھ روم میں بھی رین کوٹ پہن کر نہاتے ہیں۔‘‘ مودی کی تقریر میں گالیوں، جھوٹ اور غلط اعداد و شمار کی بہتات ہوتی ہے۔

ایسے میں جب مودی نے آنجہانی راجیو گاندھی کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تو بھلے ہی یہ بے حد شرمناک اور بیہودہ تھا، لیکن کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ مودی سے پہلے کوئی بھی وزیر اعظم اتنا نیچے نہیں گرا جس نے کسی سابق وزیر اعظم کے لیے، وہ بھی ان کے قتل کے 28 سال بعد اتنی بیہودہ بات کہی ہو۔


راجیو گاندھی جیسے ہندوستان کے بیٹے کی بے عزتی کرنا، پورے ملک اور باشندوں کی بے عزتی ہے۔ اس کے لیے ہندوستان ضرور مودی کو سبق سکھائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔