ٹوٹ گئی ’بھیم آرمی‘، تو کیا چندرشیکھر کا سورج اب غروب ہو رہا ہے!

بھیم آرمی کو بڑی شہرت اپریل-مئی 2017 کو سہارنپور میں ہوئے ٹھاکر بنام دلت جدوجہد کے دوران ملی جب اس تنظیم سے جڑے سینکڑوں نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا۔

چندرشیکھر آزاد
چندرشیکھر آزاد
user

آس محمد کیف

ایک دن بھیم آرمی چیف چندرشیکھر نے میڈیا اہلکاروں سے اپیل کی کہ ان کے نام کے آگے ’راون‘ نہ لکھیں، انھوں نے یہاں تک کہا کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ چندرشیکھر کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنےنام کے آگے کبھی راون نہیں لگایا تھا۔ نوجوان ساتھی انھیں بس ایسے ہی اس نام سے پکارتے تھے۔ چندرشیکھر نے اپنے نام کے آگے سے تکبر کی علامت ’راون‘ کو تو ہٹا دیا مگر اس وقت جب ان کی تنظیم اور پارٹی دونوں میں ٹوٹ ہو گئی ہے تو سب سے دلچسپ یہ ہے کہ ان پر ان کے ساتھی ہی تکبر کا الزام لگا کر الگ ہو رہے ہیں۔

2015 میں جب بھیم آرمی کی بنیاد ڈالی گئی تھی تو اسے چار دوستوں نے بنایا تھا۔ ان چاروں گہرے دوستوں میں ایک کو صدر بنایا گیا، دوسرے کو قومی جنرل سکریٹری، تیسرے کو قومی ترجمان اور چوتھے تھے چندرشیکھر، جنھیں بھیم آرمی چیف کا عہدہ دیا گیا تھا۔ ابھی تین دن پہلے دہلی کے امبیڈکر بھون میں انہی چار میں سے دو ساتھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پہنچے اور انھوں نے بھیم آرمی کے سینکڑوں کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے پہلے بھیم آرمی چیف یعنی اپنے دوست چندرشیکھر اور پھر دوسرے دوست یعنی بھیم آرمی صدر ونئے رتن سنگھ کے خلاف کئی طرح کے الزامات کی بارش کرتے ہوئے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ یہ سب کچھ بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کمل سنگھ والیا اور قومی ترجمان منجیت نوٹیال نے کیا۔ اس کے بعد قومی جنرل سکریٹری کمل سنگھ والیا نے مزید آگے بڑھتے ہوئے تنظیم کے ترجمان منجیت نوٹیال کو اگلا قومی صدر اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے دوران کمل سنگھ والیا اور منجیت نوٹیال نے وہاں موجود سماج کے لوگوں کے سامنے ایسی بہت سی خامیاں شمار کرائیں جنھیں لے کر وہ چندرشیکھر سے ناراض ہوئے اور انھیں بھٹکا ہوا لیڈر بتایا۔ منجیت نوٹیال نے کہا کہ چندرشیکھر اب بہوجن مشن سے بھٹک گئے ہیں۔ ان میں تکبر پیدا ہو گیا ہے۔ وہ آرام و آسائش کے پروردہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ضروری جدوجہد کا مادہ اب دکھائی نہیں دے رہا۔ بہوجن سماج پر لگاتار ظلم ہو رہا ہے، لیکن وہ اب سماج کے مفاد میں پہلے جیسی جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔ سماج میں اب ان سے مایوسی پھیل رہی ہے۔ بہوجن سماج کے لوگ اب آسانی سے ان سے مل بھی نہیں سکتے ہیں۔ وہ بڑے لیڈر بن گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ منجیت نوٹیال سہارنپور کے بیہٹ کے رہنے والے ہیں اور چندرشیکھر کے پرانے دوستوں میں ہیں۔ وہ کھیل سے لے کر جیل تک چندرشیکھر کے ساتھی رہے ہیں۔

ٹوٹ گئی ’بھیم آرمی‘، تو کیا چندرشیکھر کا سورج اب غروب ہو رہا ہے!

بھیم آرمی ایکتا مشن کا قیام اتر پردیش کے سہارنپور ضلع میں 2015 میں ہوا تھا۔ شروع میں بھیم آرمی میں اس ضلع کے دلت نوجوان کثیر تعداد میں شامل ہوئے تھے۔ چندرشیکھر اسی ضلع کے چھٹمل پور قصبہ کے رہنے والے ہیں۔ بھیم آرمی سماج میں تعلیم کو فروغ دینے اور بہوجنوں میں عوامی بیداری مہم چلانے کے لیے بنائی ہوئی تنظیم ہے، حالانکہ اسے بڑی شہرت اپریل-مئی 2017 کو سہارنپور میں ہوئے ٹھاکر بنام دلت جدوجہد کے دوران ملی جب اس تنظیم سے جڑے سینکڑوں نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ خود چندرشیکھر کو 17 مہینے جیل میں رکھا گیا اور ملک بھر میں لاکھوں دلت نوجوانوں کا جھکاؤ بھیم آرمی کی طرف ہو گیا۔ بھیم آرمی کی پہچان ایک ایسی تنظیم کی بن گئی جو دلتوں کے استحصال پر اسی زبان میں جواب دیتی ہے۔

جیل سے باہر آنے کے بعد بھی بھیم آرمی چیف چندرشیکھر کئی طرح کی جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ خصوصاً دلتوں اور مسلموں کے خلاف مظالم سے جڑے معاملوں میں انھوں نے کافی سرگرمی دکھائی۔ 2020 میں ’ٹائم‘ میگزین نے بھی انھیں ابھرتا ہوا مجاہد نوجوان مان کر سلام کیا۔ سہارنپور کی جدوجہد سےلے کر دہلی میں سی اے اے-این آر سی تحریک میں شرکت اور ہاتھرس کی بیٹی کو انصاف دلانے کی مہم تک چندرشیکھر سب سے آگے دکھائی دیے۔ اتر پردیش انتخاب سے ٹھیک پہلے چندرشیکھر نے آزاد سماج پارٹی بنا کر انتخاب لڑا۔ اس دوران پارٹی کی کارکردگی کافی خراب رہی۔ اب چندرشیکھر کہیں نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ بھیم آرمی تنظیم میں ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ بھیم آرمی ٹوٹ چکی ہے۔ جو یوتھ انھیں رول ماڈل مانتے تھے، ان میں مایوسی ہے۔ حال کے دنوں میں چترکوٹ، فرخ آباد اور لکھنؤ میں دلت سماج میں ہوئے واقعات کے بعد ان کی کمی محسوس ہوئی ہے۔


بھیم آرمی کے بانی رکن کمل سنگھ والیا بتاتے ہیں کہ جب چندرشیکھر بھائی جیل میں بھی نہیں تھے تو سماج کی تمام مائیں ان کی گرفتاری روکنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ نوجوانوں نے ان کا ساتھ دینے کے بدلے میں مقدمات برداشت کیے، سماج کی عورتیں سردی میں دھرنے پر بیٹھی رہیں۔ جب ان کو جیل بھیج دیا گیا تو ہمارے گھروں میں چولہے نہیں جلے۔ سماج نے برے وقت میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، لیکن ان کا اچھا وقت آیا تو وہ بدل گئے۔ جب کامیابی ملتی ہے تو بہت ساری تبدیلیاں آتی ہیں، یہ بھی ایسی ہی ایک تبدیلی ہے۔

ٹوٹ گئی ’بھیم آرمی‘، تو کیا چندرشیکھر کا سورج اب غروب ہو رہا ہے!

بھیم آرمی کی طرح چندرشیکھر کی بنائی ہوئی سیاسی پارٹی یعنی آزاد سماج پارٹی میں بھی زبردست اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ 2020 میں ہی بنائی گئی آزاد سماج پارٹی کو مستقبل میں بی ایس پی کا متبادل کہہ کر مشتہر کیا جا رہا تھا، لیکن یوپی میں ہوئے 2022 کے پہلے انتخاب کے بعد ہی ان کی پارٹی کے نصف سے زیادہ لیڈران نے چندرشیکھر سےکنارہ کر لیا ہے۔ ان کی کور کمیٹی کے نصف درجن اراکین ان سے دور ہو چکے ہیں۔ پارٹی کے قیام میں شامل رہے کئی لیڈران نے دوری بنا لی ہے۔ امبیڈکروادی اور آنجہانی کانشی رام کے قریبی رہے آزاد سماج پارٹی کا تھنک ٹینک سمجھے جانے والے غازی آباد کے سابق ایم ایل سی ایم ایل تومر بھی چندرشیکھر کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ 68 سالہ ایم ایل تومر کہتے ہیں کہ چندرشیکھر وقت سے پہلے بڑے ہو گئے ہیں۔ مایاوتی کو بڑا ہونے میں وقت لگ گیا تھا۔ وہ بہوجن مشن سے بھٹک گئے ہیں۔ ان کے اندر آرام و آسائش کا فائدہ حاصل کرنے کا جذبہ پنپ گیا ہے۔ انھیں بڑے ہوٹل، بنگلے اور بڑی گاڑیاں پسند آ رہی ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ جس سماج کی انھیں لڑائی لڑنے کے لیے طاقت دی گئی تھی، اس سماج کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی مشقت کرنی پڑتی ہے۔


آزاد سماج پارٹی کے ایک دیگر بانی رکن اور مغربی اتر پردیش کے انچارج کنور دیویندر سنگھ بھی ان سے دور ہو چکے ہیں۔ کنور دیویندر کہتے ہیں کہ چندرشیکھر جمہوری نہیں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں وہی حکم ہے۔ ان کے رویہ میں لچک نہیں ہے۔ وہ سختی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کے لیے یہ رویہ بے حد منفی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے سبھی اپنے اُن سے دور ہو رہے ہیں۔ کور کمیٹی کے ایک دیگر رکن نظام چودھری بھی چندرشیکھر سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل ان کی سیاست سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ان کی دوری کارکنان سے بڑھ گئی ہے۔ وہ اپنے ہی لوگوں کے درمیان رہنا چاہتے ہیں۔ ان سےجو امیدیں تھیں وہ کمزور پڑ گئی ہیں۔ آزاد سماج پارٹی کے نیشنل ایگزیکٹیو کے بیشتر اراکین یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا سرگرم نہیں ہیں۔ سابق رکن اسمبلی واسودیو، سابق رکن اسمبلی محمد غازی اور سابق بی ایس پی کوآرڈینیٹر حاجی سبیل جیسے بڑے چہرے اب چندرشیکھر کے ساتھ نہیں ہیں۔

دلت یوتھ لیڈر گورو بھارتی کہتے ہیں کہ صرف پارٹی لیڈران ہی نہیں بلکہ سماج کے نوجوان بھی ان سے دور ہو گئے ہیں۔ ان کی بھیم آرمی تنظیم کو نوجوانوں کی حمایت حاصل تھی اور چندرشیکھر کا بہت زیادہ احترام بھی تھا لیکن انھوں نے پارٹی بنا کر سب خراب کر دیا۔ سماج کی اپنی پارٹی بی ایس پی ہے۔ جب تک بہن جی ہیں، سبھی کے جذبات بی ایس پی کے ساتھ ہے۔ اس کا بہت خراب پیغام گیا۔ انھیں ابھی تنظیم کے ذریعہ سے ہی سماج کی لڑائی لڑنی چاہیے تھی۔


چندرشیکھر کے گھر سہارنپور میں ان کے تئیں سب سے زیادہ منفی بات ہو رہی ہے۔ نہ صرف ان کے سماج میںبلکہ مسلمانوں میں بھی انھیں لے کر ناراضگی ہے۔ چندرشیکھر کو سہارنپور کے مسلم طبقہ کا ہمیشہ تعاون ملتا رہا ہے۔ حال کے دنوں میں جمعہ کی نماز کے بعد ہوئے ہنگامہ میں بہت سے بے گناہ مسلم نوجوانوں کے جیل بھیجے جانے پر بھی چندرشیکھر کی خاموشی نے ان سے ناراضگی کا ماحول بنا دیا ہے۔ اس میں بھی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی پارٹی کا ایک لیڈر لکھنؤ سے بے گناہوں کی رہائی کے لیے عرضی دینے آیا تو پارٹی کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ چندرشیکھر اس بات سے ناراض ہو گئے۔ دراصل اندر کی بات یہ ہے کہ چندرشیکھر نے اب مسلمانوں کے کسی بھی ایشو پر نہ بولنے کا فیصلہ لیا ہے۔ پارٹی میں اس تعلق سے بات بھی ہوئی ہے۔ آزاد سماج پارٹی کی کور کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ ان سے دہلی کے جہانگیر پوری میں بلڈوزر مہم اور جمعہ کی نماز کے بعد ہوئی پولیس کی زیادتی کے خلاف بولنے کی گزارش کی گئی تو انھیں کہا گیا کہ مسلمان سارا ووٹ تو سماجوادی پارٹی کو دیتا ہے، ان کی لڑائی وہ کیوں لڑیں! اس سے ظاہر ہے کہ چندرشیکھر کا سورج اب غروب ہو رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔