بی جے پی کی طالبانی ذہنیت
تریپورہ میں لیفٹ فرنٹ کی بی جے پی کے ہاتھوں شکست کے فوراً بعد روسی انقلاب کے پیشوا ولادیمیر لینن کے مجسمہ کو منہدم کر دیا گیا اور تمل ناڈو میں پیریار کا مجسمہ گرا دیا گیا۔
جب مارچ 2001 میں وسطی افغانستان کے بامیان میں گوتم بدھ کا 174 فٹ اونچا مجسمہ طالبان کے ہاتھوں منہدم کیا گیا تھا تو اس کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہوا تھا اور اس حرکت کی پرزور مذمت کی گئی تھی۔ طالبان کا یہ قدم عدم رواداری کا بھیانک مظاہرہ اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کاثبوت تھا۔ اسلام میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم نہیں دی گئی ہے اسی لیے مسلمانوں نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔ اب اسی طرح کی حرکت ہندوستان میں بھی شروع ہو گئی ہے۔ تری پورہ میں ایک چوتھائی صدی تک برسراقتدار رہنے والے لیفٹ فرنٹ کی بی جے پی کے ہاتھوں شکست کے فوراً بعد روسی انقلاب کے پیشوا ولادیمیر لینن کے مجسمہ کو منہدم کر دیا گیا اور تمل ناڈو میں پیریار کا مجسمہ گرا دیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ چند روز کے اندر تری پورہ میں تشدد کے متعدد واقعات ہو گئے۔ ان واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تری پورہ میں مجسمہ انہدام کے واقعہ کے بعد جوابی کاروائیوں کے طور پر دوسروں کے مجسمے بھی منہدم کیے جانے لگے ہیں۔ اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
در اصل شدت پسند عناصر کو ایک تو بی جے پی کی فتح سے حوصلہ ملا اور دوسرے بی جے پی لیڈروں کی جانب سے حاصل پشت پناہی کی وجہ سے بھی ان کے حوصلے بلند ہوئے۔ ریاستی گورنر تتھاگت رائے نے اگر چہ تشدد کی مخالفت کی ہے لیکن ان کی جانب سے ایسے عناصر کی حمایت بھی جاری ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر جمہوری طور پر منتخب ایک حکومت کچھ کر سکتی ہے جمہوری طور پر منتخب دوسری حکومت بھی کچھ کر سکتی ہے۔ لیکن گورنر صاحب ذرا بتائیں گے کہ کیا یہ حرکت حکومت نے کی ہے یا غنڈوں نے کی ہے۔ اور پھر کوئی بھی کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اگر اس سے الگ راستہ اختیار کیا جائے تو انتشار کے دروازے کھلتے ہیں۔ اور پھر ہندوستان کا قانون دوسروں کے جذبات کو برانگیخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ خود بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں کی جانب سے حالیہ برسوں میں تھانوں میں ہزاروں شکایتیں درج کرائی گئی ہیں کہ فلاں کے فلاں عمل سے ہمارے جذبات پامال ہوئے ہیں۔ ان پر پولیس نے کارروائیاں بھی کی ہیں۔ تو کیا لینن کے مجسمہ کے انہدام سے ایک طبقے کے جذبات پامال نہیں ہوئے۔
اگر چہ نائب صدر، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر ان کارروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں لیکن بی جے پی کے اکثر لیڈران اس حرکت کی تائید بھی کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے کئی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر مجسمہ نصب کرنا ہے تو بھارتی ہیروز کا کیا جانا چاہیے نہ کہ باہری لوگوں کا۔ یہ ذہنیت بڑی خطرناک ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو ملک کے دوسرے حصوں میں سنگھی عناصر کے ذریعے ہنگامہ کرواتی اور غیر سنگھی طبقات کو نشانہ بنانے کے لیے اکساتی ہے۔ ابھی تک ملک کا شمال مشرقی علاقہ اس قسم کے واقعات سے پاک تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ خطہ بھی ہنگاموں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ اور دوسرے لیڈران کیرالہ اور مغربی بنگال میں ’’سیاسی قتل‘‘ کے خلاف بڑی آوازیں اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاسی بنیاد پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ بی جے پی کے لوگ سیاسی بنیاد پر کتنا ہنگامہ کرواتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا امت شاہ اور دوسرے لیڈران بتائیں گے کہ تری پورہ میں بائیں بازو کے دفاتر اور کمیونسٹ کارکنوں پر حملے سیاسی حملے نہیں ہیں۔ جو ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں کیا وہ سیاسی ہنگامہ آرائی کا نتیجہ نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی سیاسی اور مذہبی جذبات کے اشتعال کے بل بوتے پر ہی اقتدار تک پہنچی ہے۔ تری پورہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ یہ صورت حال اس بات کا اشارہ ہے کہ اب آگے جہاں جہاں بھی بی جے پی کی جیت ہوگی، اسی طرح ہنگامے ہو سکتے ہیں۔
سی پی ایم کے لیڈروں نے جہاں مجسمہ کے انہدام کے خلاف احتجاج کیا ہے وہیں انھوں نے تشدد کی بھی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت ’’پیپلز فرنٹ آف تری پورہ‘‘ کے حامیوں کی جانب سے پوری ریاست میں ان کے دفاتر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور گھروں پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔ بی جے پی نے جشن فتح کی آڑ میں ان واقعات کی حمایت کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کو جو مینڈیٹ ملا ہے مذکورہ واقعات اس کے خلاف ہیں۔ بی جے پی نے سرکاری ملازمین کے لیے ساتویں پے کمیشن کی سفارشات کے نفاذ اور نوجوانوں کو ملازمتیں اور اسمارٹ فون دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے۔ لیکن جس طرح مرکز میں آنے کے لیے بہت سارے وعدے کیے گئے اور جن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ اسی طرح وہاں بھی کوئی وعدہ پورا ہونے والا نہیں ہے۔ اسی لیے اس قسم کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے تاکہ عوام کی توجہ ابھی سے بنیادی باتوں اور وعدوں سے ہٹا دی جائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی تری پورہ میں اپنی فتح ہضم نہیں کر پا رہی ہے۔
تری پورہ کے واقعات میں اپوزیشن کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر اس نے خود کو نہیں بدلا تو پورا ملک بھگوا رنگ میں رنگ جائے گا اور اگر ایک بار پورے ملک پر بھگوا جھنڈا لہرانے لگا تو پھر اسے اتارنا آسان نہیں ہوگا۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی پہلے بھی اپوزیشن اتحاد کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر تمام اپوزیشن لیڈروں کو ڈنر پر مدعو کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن لیڈران صرف کھانا کھا کے نہ چلے آئیں بلکہ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک متفقہ اور متحدہ لائحہ عمل تیار کریں۔ 2019 کے انتخابات کے پیش نظر ممکنہ اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کا یہ بیان کہ تھرڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آنا چاہیے، اسی جانب ایک قدم ہے۔ ملک میں اب جو سیاسی صورت حال ہے اس میں نہ کوئی تھرڈ فرنٹ کام آسکتا ہے نہ کوئی فورتھ فرنٹ، بلکہ سنگل فرنٹ کی ضرورت ہے۔ جب تک حزب اختلاف کی تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گی 2019 میں بی جے پی کو ہرانا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر ان میں اتحاد نہیں ہوا تو ابھی تک جو کچھ شمالی ہند میں ہوا ہے یا آج جو کچھ شمال مشرق میں ہو رہا ہے، وہی پورے ملک میں ہوگا اور اس کی ذمہ داری اپوزیشن پر بھی عاید ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Mar 2018, 4:03 PM