آر ایس ایس کا عروج ملک کیلئے سنگین خطرہ—II
مئی 2014 میں مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت کیا قائم ہوئی کہ فاشسٹ نظریات کے حامل آر ایس ایس کی تقدیر کھل گئی۔ اس آر ایس ایس کو جو 1925 میں اپنے قیام کے پہلے روز سے ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھتا رہا ہے، اپنے خواب کی تعبیر مل گئی ۔ اسی کے ساتھ ہندوستان ایک تاریخی مگر بدترین تبدیلی سے ہمکنار ہوگیا۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی ہندوستان کے سیکولر کردار کو گہن لگ گیا۔ وہ سیکولر کردار جو ہندوستان کی اصل شناخت ہے اور جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اندیشوں کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں کھو گیا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ شکوک و شبہات کا اظہار تو پہلے دن سے ہی کیا جا رہا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ مودی حکومت ہندو راشٹر کے قیام کے راستے پر اتنی تیز دوڑے گی کہ ہندوستان کی اصل شناخت کو ہی تہس نہس کرتی چلی جائے گی۔ یہ حکومت تاریخی انتخابی کامیابی کے نشے میں بدمست ہو کر ہر وہ فیصلہ کر رہی ہے جو آر ایس ایس کے عزائم کی تکمیل میں معاون اور سیکولرزم کو کمزور کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ خواہ اس سے مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی ہم آہنگی کا تانا بانا ہی کیوں نہ منتشر ہو جائے۔ اس کے لیے مختلف سطحوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کی پہلی کڑی میں آپ نے پڑھا کہ آر ایس ایس مختلف تنظیموں پر اپنا قبضہ جماتی جا رہی ہے۔ پیش ہے اسی مضمون کی دوسری کڑی جس میں مصنف نے آر ایس ایس کی تعلیمی میدان میں سرگرمی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے:
حکومت نے گزشتہ دنوں این سی ای آر ٹی کی کتابوں کے نصاب میں تبدیلی کے لیے لوگوں سے مشورے طلب کیے ہیں۔ ان مشوروں میں سب سے خطرناک مشورے دینا ناتھ بترا کے ہیں۔ بترا آر ایس ایس کے ایک ادارے شکشا سنسکرتی اتھان کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ نصابی کتابوں سے انگریزی، اردو اور عربی کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ رابندر ناتھ ٹیگور کے خیالات، مرزا غالب کی شاعری، ایم ایف حسین کی مصوری، مغلوں کی تاریخ، بی جے پی کی ایک ہندو پارٹی کیے طور پر شناخت، نیشنل کانفرنس کی سیکولر پارٹی کی شناخت، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی 1984 کے سکھ مخالف فسادات پر معافی اور یہ اقتباس کہ ’’2002 کے گجرات فسادات کے دوران تقریباً دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے‘‘ ہٹا دیے جائیں۔ انھوں نے اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کو نصاب سے نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ہندو تہذیب وثقافت متاثر ہوتی ہے۔ انھیں غالب کے اس شعر سے چڑ ہے کہ ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن، دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ وہ اسے بھی ناپسند کرتے ہیں کہ طلبا کو یہ بتایا جائے کہ بابری مسجد کی تعمیر بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے کروائی تھی جس کے بارے میں بہت سے ہندووں کا خیال ہے کہ اسے رام کے جنم استھان کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔ دینا ناتھ بترا نے اکبر کی صلح کل پالیسی اور مغل حکمرانوں کے ذریعے ہندو مندروں کو مالی امداد دینے کے تاریخی حقائق بھی نکال دینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رام مندر تحریک کو بی جے پی کے سیاسی عروج سے جوڑ کر دیکھنا بھی غلط ہے۔ انھوں نے ورن نظام سے متعلق کئی باتوں کو بھی حذف کرنے کی وکالت کی ہے۔
دینا ناتھ بترا نے مورل سائنس کی کتابیں تصنیف ہیں جو اخلاقیات کے درس کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو ہریانہ کی حکومت نے منظوری دی ہے۔ ساتویں اور بارہویں کی کتابوں کا آغاز سرسوتی وندنا سے ہوتا ہے۔ اس پر بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ہندو طلبہ کو سروستی وندنا پڑھنے پر مجبور کرنا سیکولر نظریات کے منافی ہے۔
راجستھان یونیورسٹی نے اپنے نصاب میں ایک ایسی کتاب شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکبر نے مہارانا پرتاپ کو 1576 کی جنگ میں شکست دی تھی۔ لیکن اس کتاب میں تحریر ہے کہ مہارانا پرتاپ نے اکبر کو ہرایا تھا۔
راجستھان ہی میں آٹھویں کلاس کی سوشل سائنس کی کتاب میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دسویں اور بارہویں کی کتاب میں ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں گاندھی جی کے قتل کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کے نظریہ ساز ویر ساورکر کو تفصیل کے ساتھ ایک عظیم مجاہد آزادی اور انقلابی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
گجرات اسٹیٹ بورڈ آف سوشل ٹیکسٹ بکس کے ذریعے شائع کی جانے والی کتاب میں مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کو غیر ملکی بتایا گیا ہے۔ جبکہ دسویں کی کتاب میں ہٹلر کو ہیرو قرار دیا گیا ہے۔
یہ تو وہ تفصیلات ہیں جو مختلف اداروں اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق ہیں۔ آئینی سطح پر بھی ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو ملک کے سیکولر تانے بانے کے منافی ہیں۔ مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے فوراً بعد جو کام کیے گئے ان میں ایک کام نئے گورنروں کا تقرر بھی تھا۔ بیشتر ایسے لوگوں کو گورنر مقرر کیا گیا جو آر ایس ایس کے پرچارک یا اس کے نظریے کے حامی اور طرفدار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی کے گورنر رام نائک ہوں یا تریپورہ کے گورنر تتھاگت رائے، ایسے متنازعہ بیانات دیتے رہتے ہیں جو ان کے منصب کے منافی ہیں مگر جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست کو سوٹ کرتے ہیں۔
انھی میں ایک رام ناتھ کووند بھی تھے جن کو بہار کا گورنر بنایا گیا تھا۔ وہ بھی آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں۔ اب وہ ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے یعنی صدر کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ صدر کے عہدے کو کسی تنازعہ میں گھسیٹنے سے قطع نظر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پہلی بار کوئی آر ایس ایس مین رائے سینا ہلز میں یعنی راشٹرپتی بھون میں پہنچا ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایک وقت تھا جب آر ایس ایس پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔ لیکن آج اسی آر ایس ایس سے وابستہ ایک شخصیت صدر جمہوریہ یعنی ملک کے اول شہری کے منصب پر فائز ہے۔
اسی طرح اترپردیش میں عدیم المثال کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک انتہائی متنازعہ سیاست داں کو جو کہ سیاست داں کم اور ایک مٹھا دھیش زیادہ ہے، ریاست کا وزیر اعلی بنایا گیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی فرقہ پرست ذہنیت کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد کس طرح سماج میں مذہبی بنیاد پر دراڑیں پیدا کی جا رہی ہیں اور کس طرح سیکولرزم کے منافی فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
اہم عہدوں اور پوزیشنوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کو فائز کرنے کے علاوہ سماجی سطح پر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو عوام کو ان کے مذہب کے نام پر بانٹ دے تاکہ آگے چل کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد جو اہم فیصلے کیے گئے یا جو اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، یہ محض ان کی ایک جھلک ہے۔ حالات اس سے بھی زیادہ ابتر ہیں اور مزید ابتر کیے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے سیکولرزم کے لیے سنگین خطرے کی جانب اشارہ کرتی ہے جس پر ہر سیکولر شہری کو تشویش ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Aug 2017, 1:00 PM