سونیا گاندھی: ہندوستانیت کو اختیار کر عوامی زندگی کو متعارف کرانے والی شخصیت (سلمان خورشید کا مضمون)
2004 کے لوک سبھا انتخاب میں جیت کے بعد ملک سونیا گاندھی کو اقتدار سنبھالنے کے لیے منا رہا تھا، لیکن اس وقت انھوں نے قربانی کے ہندوستانی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے انکار کر دیا تھا۔
کانگریس پارٹی کی ایک رکن اور پارٹی کی نشیب و فراز بھری تاریخ کی گواہ کے طور پر مجھے سونیا گاندھی اور ان کی بے مثال سیاسی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا فخر حاصل ہے۔ اس میں کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے اور یہ بلاوجہ بھی نہیں ہے کہ بیشتر لوگ مانتے ہیں کہ بھلے ہی وہ 76 سال کی ہو گئی ہیں اور اب انھوں نے سیاسی ذمہ داریاں اپنے باصلاحیت بچوں اور ایک تجربہ کار معاون کے لیے چھوڑ دی ہیں، لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخاب کے لیے جمہوری اپوزیشن پارٹیوں کا ایک قابل اعتماد ’مہاگٹھ بندھن‘ ان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست میں صرف ایک ہفتہ گزارنا ہی کافی ہوتا ہے، اور یہ کہنا شاید ابھی جلدبازی ہوگی، لیکن کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر ویسا ہی کردار نبھائیں گی جیسا کہ انھوں نے 2004 کے لوک سبھا انتخاب کے وقت نبھایا تھا، اور جس سے یو پی اے وجود میں آیا تھا۔ اور اس کے بعد 10 سال کا ایک بہتر وقت دیکھنے کو ملا تھا۔ ہم سبھی گزرتے سالوں کے ساتھ جسمانی طور پر تھک جاتے ہیں، اور وہ بھی ایسا کہہ سکتی ہیں، لیکن حال ہی میں ان کے ساتھ ہوئی ملاقات اور بات چیت میں ایسی کوئی علامت دکھائی نہیں دی۔ اس کے برعکس ان میں ایک امید اور عزم مصمم نظر آیا۔
آئندہ دنوں میں سونیا گاندھی کی قابل ذکر زندگی پر ایک مکمل کتاب لکھی جائے گی، جس میں انھیں اچھی طرح سے جاننے والے لوگوں کا تبصرہ ہوگا۔ لیکن حال میں، ہم ان کی زندگی کی ایک صدی کے تین چوتھائی حصہ کا جشن منا رہے ہیں، جس کا بیشتر وقت انھوں نے ایسے ملک میں گزارا ہے جہاں ان کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لیکن جسے انھوں نے پوری ایمانداری اور جذباتیت کے ساتھ اپنایا اور اپنا بنایا۔
ملک کے لوگوں نے جس طرح کی محبت اور احترام انھیں دیا ہے، اسے صرف کچھ کمزور نگاہ سیاسی مخالفین ہی نہیں سمجھ پائے اور ان کے غیر ملکی نژاد ہونے کو ایشو بنا کر ان کی مخالفت کرتے رہے، کیونکہ ان کے پاس کوئی دیگر سیاسی ہتھیار نہیں تھا۔ لیکن وہ سبھی آج اپنی ناکامی پر پچھتا رہے ہیں۔
ہم میں سے وہ لوگ جنھوں نے پرجوش انداز میں سونیا گاندھی کو قبول کیا اور ان کا احترام کیا، وہ صرف اس لیے نہیں کہ انھوں نے ہمارے سیاسی سفر کو آگے بڑھایا یا پورا کیا، بلکہ اس لیے کہ انھوں نے جس طرح کی اپنائیت اور محبت کا معاملہ ہمارے ساتھ رکھا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کسی کی بہن بن کر تو کسی کی بیٹی بن کر اور کسی کی ماں بن کر۔ جس طرح اینی بیسنٹ اور سی ایف اینڈریوز نے ہماری آزادی کی قابل فخر تاریخ میں اپنی نشانی چھوڑی ہے، اسی طرح سونیا گاندھی نے ہمارے وقت میں انڈین نیشنل کانگریس کی ترقی اور وسعت پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔
سونیا گاندھی کی قابل ذکر زندگی ہندوستانیت کی خوبیوں اور انسانیت کے عالمگیر اقدار کی ایک مضبوط مثال بھی ہے۔ جب دنیا کی بڑی آبادی کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت کر رہی ہے، ایسے میں پوری دنیا کی سیاسی اور ثقافتی شکل ڈرامائی طریقے سے بدل رہی ہے۔ جنوب ایشیائی نژاد کے کسی شخص کو مغربی جمہوریت میں ایک اہم عہدہ یا مقام پر دیکھنا اب غیر معمولی نہیں۔ کبھی کسی کیتھولک یا سیاہ فام امریکی صدر کا تصور ناممکن سمجھا جاتا تھا، لیکن جان ایف کینیڈی اور براک اوباما کی فتح نے اس غلط فہمی کو دور کیا۔ اسی طرح حال ہی میں رشی سنک نے برطانیہ میں قدامت پرستی کا چہرہ بدل دیا ہے۔
2004 کے لوک سبھا انتخاب میں یو پی اے کی جیت کے بعد پورا ملک سونیا گاندھی کو ملک کا اقتدار سنبھالنے کے لیے منا رہا تھا، لیکن اس وقت انھوں نے کچھ ایسا کیا جو پوری طرح سے ہندوستانی عمل تھا۔ انھوں نے سرکاری عہدہ کے فوائد کی قربانی دے کر ذاتی عزائم کے ساتھ عوامی خدمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ قربانی کے ہندوستانی فلسفہ کی ضرورت اور اپنے خود کے لیے اقتدار سے الگ ایک عزم کی واضح عوامی مثال تھی۔
یہ بلاشبہ ان کے عالمگیر نظریہ کی خصوصیات ہیں۔ یہاں تک کہ عوام کی زندگی کے روز مرہ کے ایشوز کو لے کر بھی ملک کے شہریوں کے تئیں ان کی خیر سگالی اور ہمدردی، ان کی حساسیت، بچوں و خواتین اور معذوروں کے لیے فکر ان کی ایک ایسی شکل سامنے رکھتی ہے جو اپنائیت سے بھری ہے۔ یہ ساری باتیں ان کے ایک بہتر ہندوستانی ہونے کا عکس پیش کرتی ہیں۔
دورِ جدید کی ہندوستانی سیاست میں ہم میں سے کئی لوگوں کو مغربیت سے متاثر مانا جاتا ہے کیونکہ ہم انگریزی بولنے والے پبلک اسکولوں میں گئے ہیں۔ جب میں ایسا کہتا ہوں تو جواہر لال نہرو کے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں۔ وہ ہندوستانی ثقافت اور سماجی روایت کو گہرائی سے جانتے، مانتے اور سمجھتے تھے، پھر بھی وہ ان سبھی برے رسوم سے لڑنے کے لیے پرعزم تھے جن کی جڑیں ملک میں گہرائی تک تھیں۔ انھیں ایک طرف سائنسی، جدید اور ذہنی طور سے لبرل ہونے اور دوسری طرف ہندوستان کے کئی مذاہب سے تیار خاص ہندوستانی اخلاقیات پر فخر کرنے کے درمیان کوئی تضاد نہیں لگتا تھا۔
شاید نہرو کو ایک ساتھ ہی کئی باتوں کو نظر انداز کرنا اور نئے سرے سے سیکھنا پڑا تھا۔ شاید سونیا گاندھی نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ ایک مغربی تہذیب سے آئی خاتون تھیں، لیکن ہندوستان کی ثقافتی اخلاقیات کو انھوں نے آسانی سے اور جلدی ہی اختیار کر لیا اور فطری طور سے ہندوستان میں پیدا جدید ہندوستانیوں کے لیے ایک علامت بن گئیں۔
سونیا گاندھی نے مشکل حالات یا ذاتی نقصانات کے وقت جس نرمی اور سمجھدار شخصیت کا مظاہرہ کیا، وہ ان کی شخصیت کا دوسرا سب سے اہم زاویہ ہے۔ سونیا گاندھی نے جس طرح کا مشکل وقت برداشت کیا ہے، وہ کسی بھی عام شخص کو توڑ کر رکھ دیتا۔ لیکن جب بھی سیاسی واقعات نے مشکل حالات پیدا کیے، وہ کبھی بھی پریشان نہیں ہوئیں، اور شاید ہی کبھی مایوس نظر آئیں۔ جب پارٹی کے ایسے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑا اور دھوکہ دیا جنھیں انھوں نے طویل مدت تک ایک طرح سے پرورش کی اور ان کے ساتھ کھڑی رہیں، تب بھی وہ پرعزم ہی نظر آئیں۔ عوامی پلیٹ فارم پر انھوں نے کبھی ایک بھی مایوس کن لفظ نہیں کہا۔
خاص طور سے مجموعی یو پی اے حکومت کے خلاف جب غلط بیانی عروج پر تھی، اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک بار کہا تھا ’’تاریخ ہم پر مہربان رہے گا۔‘‘ جس شخص نے خاموشی سے، ہمت کے ساتھ غریبوں اور محروموں کی فلاح کے لیے اس سماجی عزائم کا پردے کے پیچھے سے ساتھ دیا، وہ سونیا گاندھی ہی تھیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کے 2004 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی سونیا گاندھی نے تشہیر کے دوران ہی اس کا ایک طرح سے یہ کہتے ہوئے اس وقت اسٹیج تیار کر دیا تھا، جب انھوں نے ایک جلسہ میں بی جے پی سے پوچھا تھا کہ اس شور شرابے والے ’انڈیا شائننگ‘ مہم سے عام آدمی کو کیا حاصل ہوا۔ دراصل سماج کے سب سے محروم طبقے کو لے کر عزائم ہی منموہن سنگھ حکومت کے سماجی فلاح کے منصوبوں کی بنیاد تھے۔
تاریخ اسے بھی یاد رکھے گا۔ بھلے ہی ہندوستانی تاریخ، قدیم اور جدید، دونوں کو موجدہ برسراقتدار حکومت اور ان کے مفکرین کے ذریعہ پھر سے تحریر کیا جا رہا ہے، یا لکھے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کو ایک زیادہ جامع اور مساویانہ ملک کا پھر سے تصور کرنے کی باہمت کوشش ان سبھی دلوں میں رہے گی جو ملک سے محبت کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔