کرناٹک میں بھارت جوڑو یاترا کا سوشل آڈٹ

کرناٹک میں21 دنوں تک رہنے والی بھارت جوڑو یاترا نے 48 اسمبلی حلقوں سے گزری تھی جن میں سے 32 سیٹوں پر کانگریس کامیاب ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے اس یاترا کی کامیابی کا اسٹرائک ریٹ 66 فیصد ہے۔

تصویر ٹوئٹر / @INCIndia
تصویر ٹوئٹر / @INCIndia
user

اعظم شہاب

کرناٹک کے نتیجوں نے بی جے پی کی عجیب حالت کر دی ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے الیکشن جیوی میں تبدیل ہو جانے والی اس پارٹی کے ترجمان اب یہ کہہ کر اپنی ہزیمت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’جیت ہار تو ہوتی رہتی ہے، ہماری پارٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے‘۔ لیکن جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تو ان کا باڈی لینگویج اس بات کا چغلی کھا رہا ہوتا ہے کہ کرناٹک کی ہار سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی پارٹی کو بھی بہت فرق پڑا ہے اور یہ فرق اس قدر شدید ہے کہ اس سے ان کی پارٹی کے چانکیہ اور چندرگپت دونوں ہی ڈھیر ہوگئے۔ ایسے میں اگر آنے والے اسمبلی وعام انتخابات پر کرناٹک کے نتائج کے اثرات سے متعلق سوال کرلیا جائے تو ان کی حالت اس شخص کی سی ہوجاتی ہے جو زیادہ مقدار میں کوئی سافٹ ڈرنک پی کر اپنی ڈکار روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مودی میجک اور شاہ کی منصوبہ بندی کو سب پر فوقیت دیتے ہیں لیکن ان کا چہرہ بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی تشویش کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بی جے پی کے یہ مہارتھی کرناٹک کے بالمقابل اپنی گجرات کی کامیابی کو آج کل پیش کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مودی میجک اور امیت شاہ کی پلاننگ ہی تھی کہ گجرات میں بی جے پی نے 85 فیصد سے زائد سیٹیں جیت لی تھیں، ایسے میں اگر کانگریس نے کرناٹک میں 224 سیٹوں میں سے 136؍سیٹیں جیت لی ہیں، تو کون سا تیر مار لیا ہے۔ لیکن یہ تاویل پیش کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ گجرات و کرناٹک کے انتخابات کی نوعیت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ گجرات مودی و امیت شاہ کی جنم بھومی ہے، جہاں بیس برسوں سے زائد عرصہ تک مودی جی وزیراعلیٰ اور اس سے کچھ کم عرصے تک ہی امیت شاہ وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ اپنی اس جنم وکرم  بھومی میں بھی مودی وشاہ صاحب کو ڈیرہ ڈالنا پڑگیا تھا اور موٹے موٹے آنسوؤں کے ساتھ گجرات کے لوگوں سے ایپلیں کرنی پڑیں تھیں کہ وہ ان کی لاج رکھ لیں۔ جبکہ یہ بات ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جس وقت گجرات میں الیکشن ہو رہے تھے، پوری کانگریس کی توجہ بھارت جوڑو یاترا پر تھی، اس لیے اس نے گجرات کے الیکشن پر دھیان ہی نہیں دیا۔


جب گجرات میں الیکشن ہو رہے تھے تو بھارت جوڑو یاترا مہاراشٹر میں تھی۔ راہل گاندھی نے دو دنوں تک اپنی یاترا کو وفقہ دے کر گجرات گئے تھے اور خانہ پری کے طور پر دوعوامی جلسوں سے خطاب کرکے واپس آگئے تھے۔ راہل گاندھی کا یہ خطاب بھی عمومی نوعیت کا تھا۔ نہ ہی انہوں نے کسی پر تنقید کی تھی اور نہ ہی مودی جی کی طرح کوئی جذباتی کارڈ کھیلا تھا۔ راہل گاندھی کے خطابات کو سن کر ہی لوگوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ گجرات کے الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ بی جے پی کو یک طرفہ طور پر کامیابی ملتی سو وہ اسے مل گئی۔ عام آدمی پارٹی نے ضرور تھوڑی دیر کے لیے پردھان سیوک وشاہ صاحب کو پریشان کیا تھا لیکن انہیں معلوم تھا کہ وہ کانگریس کی جگہ کسی بھی قیمت پر نہیں لے سکتی۔ کیونکہ گجرات کے الیکشن کا اعلان دہلی میونسپل کارپوریشن وہماچل پردیش کے الیکشن کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی کی پوری توجہ دہلی میں تھی اور کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا میں۔ ایسے میں اگر مودی جی وشاہ صاحب کو گجرات 85 فیصد سے زائد سیٹیں مل گئیں تو کیا یہ کوئی کمال کی بات ہے؟

کرناٹک میں کانگریس کی یہ جیت بھارت جوڑو یاترا کا سوشل آڈٹ بھی ہے۔ اس سے پہلے کسی ادارے یا کسی تنظیم نے بھارت جوڑو یاترا کا سماج پر ہونے والے اثرات کا کوئی جائزہ نہیں لیا تھا جبکہ یہ ایک غیرمعمولی یاترا تھی اور اس کا سوشل آڈٹ کیا جانا ضروری تھا۔ کرناٹک کے انتخابات میں اس کے اثرات کا عملی نمونہ سامنے آگیا کیونکہ بھارت جوڑو یاترا کرناٹک میں کل 21 دن تھی اور ان 21 دنوں میں وہ 7 اضلاع چامراج نگر، میسور، مانڈیا، تمکور، چتردرگ، بیلاری اور رائے چور ہوتے ہوئے 511 کلومیٹر کا سفرکیا جس میں 48 اسمبلی حلقے آتے ہیں ان میں سے 32 سیٹوں پر کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے راہل گاندھی کے بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کا اسٹرائک ریٹ 66 فیصد ہے۔ یہ کامیابی 2018 کے انتخابات سے دوگنی بھی سے زائد ہے۔ 2018کے انتخابات میں ان اسمبلی سیٹوں میں سے کانگریس 15 سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ کنیاکماری سے کشمیر تک ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک کی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے۔


کرناٹک میں مودی و امیت شاہ نے زبردست محنت کی جس کا اعتراف اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے خود وزیراعلیٰ بومئی نے بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے کارکنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم نہیں جیت سکے۔ دراصل کرناٹک انتخابات میں سب سے زیادہ متوجہ کرنی والی چیزیں مودی وامت شاہ کی ریلیاں تھیں۔ ان ریلیوں سے متعلق خود بی جے پی نے جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں ان کے مطابق کرناٹک میں بی جے پی نے کل 9125 ریلیاں اور 1377 روڈ شوز کیے۔ ان میں وزیراعظم مودی کے19 اضلاع میں 42 ریلیاں ہیں جن میں 164 اسمبلی حلقے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ 6 روڈ شو بھی کیے جن میں سے 3 بنگلور میں اور ایک ایک میسور، کلبرگی وتمکورو میں ہوئے۔ ان 164 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی محض 55 سیٹیں ہی جیت پائی۔ جبکہ امیت شاہ نے 30 ریلیوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے جن علاقوں میں ریلیاں اور روڈ شو کیے ان میں بی جے پی صرف 37 فیصد سیٹوں پر کامیاب ہوسکی۔

ایسے میں بی جے پی کے لوگوں کے ذریعے کرناٹک کا گجرات سے موازنہ کیا جانا مضحکہ خیز ہی کہا جائے گا۔ کرناٹک میں کانگریس کی یہ کامیابی اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ بی جے پی یہاں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ کرناٹک کی فضاوٴں میں انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پچاس سے زائد ہیلی کاپٹر وچارٹرڈ طیارے پرواز کر رہے تھے جن میں سے محض 9 ہی کانگریس ودیگر پارٹیوں کے تھے، بقیہ تمام بی جے پی کے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرناٹک جیتنے کے لیے کیا کیا جتن کیے گئے تھے۔ اس کے باوجود کرناٹک کے لوگوں کے ذریعے مودی کو مسترد کر دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی برانڈ کے دن اب لد چکے ہیں۔ کرناٹک کے نتیجے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ راہل گاندھی مودی سے بھی بڑے برانڈ بن چکے ہیں۔ یہ دراصل بھارت جوڑو یاترا کا سماجی اثر ہی ہے جس کے سوشل آڈٹ کا ایک نمونہ کرناٹک میں سامنے آیا ہے۔

نوٹ: مضمون میں جو بھی رائے ہے وہ مضمون نگار کی ہے اور قومی آواز کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔